بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرکاری اراضی پر قائم مبینہ غیر قانونی تعمیرات کو سیل کرنے اور تجاوزات کو گرانے کی کارروائی نے عوامی حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔حکومتی اداروں کی مہم کے خلاف متاثرین کے مظاہروں کا سلسلہ طول پکڑ رہا ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں بھی احتجاج کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکز میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
مقامی انتظامیہ نے مہم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں ایسی حکومتوں کا غلبہ رہا ہے جن کے حکمران زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی سرکاری اراضی اور دوسری املاک پر قابض ہوئے۔ اس کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ افراد ، سرکاری افسران، بڑے تاجروں اور با اثر لوگوں نے سرکاری اراضی پر ناجائز تعمیرات قائم کیں یا انہیں الاٹ کی گئی زمین کے ارد گرد کی زمینوں کو تحویل میں لیا ہے جب کہ ان پر تجاوزات قائم کی گئیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے محکمۂ مال کے کمشنر سیکریٹری وجے کمار بِدھوری نے دسمبر 2022 میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں علاقے کے سب ہی 20 اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں سے کہا گیا تھا کہ وہ سرکاری اراضی پر ناجائز قبضوں اور تجاوزات کو 31 جنوری 2023 سے پہلے پہلے ہٹانے کو یقینی بنائیں۔
اس حکم نامے کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے، جن میں کانگریس، نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی ، جموں و کشمیر اپنی پارٹی ، پیپلز کانفرنس وغیرہ شامل ہیں، شدید مخالفت کی۔
ان جماعتوں نے حکومت کے خلاف کئی مقامات پر احتجاج کیا ہے۔حکومتی اداروں نے جب مبینہ قبضوں اور تجاوزات کو ہٹانے کی کارروائی شروع کی تو احتجاج کا دائرہ وسیع ہوگیا ۔ کئی مقامات پر انہدامی کارروائیوں کے دوران متاثرین اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدرمحبوبہ مفتی الزام لگاتی ہیں کہ حکومت کا یہ اقدام جموں و کشمیر کے حقیقی باشندوں کو بے اختیار کرنے کی نریندر مودی حکومت کی اُس پالیسی کی تازہ کڑی ہے جس کا آغاز ان کے بقول پانچ اگست 2019 کو ریاست کی آئینی نیم خود مختاری کو منسوخ کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنانے سے کیا گیا تھا۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر: سرکاری زمینوں پر مبینہ قبضے اور تجاوزات کے خاتمے کے حکم کے خلاف مزاحمت تیزانہوں نے کہا کہ گزشتہ ساڑھے تین برس کے دوران جموں و کشمیر میں کئی ایسے قوانین متعارف اور یکے بعددیگرے متعدد ایسے اقدامات کیے گئے جن کا مقصد مقامی لوگوں کو بے اختیار ، بے عزت کرنا اور ان کے سیاسی عقائد پر انہیں سزا دینا ہے۔
حزبِ اختلاف کی علاقائی جماعتوں کے اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے ترجمان اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد بھارت کی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے جو بھی اقدامات یا فیصلے کیے ان کا مقصد جموں و کشمیر کے عوام کو بے اختیار بنانا، مفادات کو نقصان پہنچانا اور مقامی معیشت کو کمزور کرنا ہے۔
ان کے مطابق لوگوں کی املاک پر بلڈوزر چلانا بھی بی جے پی کی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
محمد یوسف تاریگامی کا کہنا تھا کہ نادار لوگوں کو بھی ان کی چھت سے محروم کیا جا رہا ہےجب کہ ان سے روزی روٹی کے مواقع چھین کر انہیں افلاس اور تنگ دستی کے اندھیروں میں دھکیلا جارہا ہے جس سے ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور وہ سڑکوں پر آگئے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کی کوشش غیر مقامی افراد کو پہنچانا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے کہا ہے کہ وہ سرکاری اراضی پر ناجائز قبضوں یا تجاوزات کو ہٹانے کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس سلسلے میں کی جا رہی زبردستی کو شہری حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
انہوں نے سرکاری اراضی پر مبینہ قابضین یا تجاوزات قائم کرنے والے افراد کو باضابطہ نوٹس جاری کرنےپر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت دھونس، جبر و استبداد اور من مانی کارروائیاں کرے تو اس کے خلاف عوامی مزاحمت کو نہیں ٹالا جاسکتا۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر :نئے لینڈ گرانٹ رولز کیا ہیں اور اس پر تنقید کیوں کی جا رہی ہے؟جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے اپوزیشن جماعتوں پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا جوابی الزام عائد کیا ہے۔
منوج سنہا نے کہا ہے کہ ریاست میں ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی پر بے اصول اور بد دیانت افراد، جن میں سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں، قابض ہیں اور ان کے خلاف ان کی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کارروائی قانون کے دائرے کے اندر کی جا رہی ہے۔
حکام کے مطابق اب تک جو سرکاری اراضی واگزار کرائی گئی ہے، اس میں وہ اراضی بھی شامل ہے جس پر بی جے پی کے سابق نائب وزیرِ اعلیٰ کویندر گپتا سمیت بعض رہنماؤں نے قبضہ کیا ہوا تھا۔
نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے اس دو تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔ ان میں سے ایک میں جموں میں ایک عام شہری کی سرکاری زمین پر تعمیر کیے گئے کار شو روم پر سرکاری بلڈوزر چلاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جب کہ دوسری تصویر میں اننت ناگ شہر میں بی جے پی کےمقامی رہنما محمد یوسف صوفی کے ایک ایسے تجارتی مرکز دکھایا گیا ہے جسے سرکاری اراضی پر غیر قانونی طور پر قائم کیا گیا ہے البتہ اسے مسمار کرنے کے بجائے حکام نے سیل کیا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں حکومت کے شائع اشتہاروں کے مطابق سرکاری اراضی پر قبضہ کرنا یا اسے اپنی جائز جائیداد میں ملانے والوں میں کئی سابق وزرا، ارکان اسمبلی سمیت 30 سے زائد سیاست دان شامل ہیں۔ریاستی گورنر نے یقین دلایا ہے کہ ان سب کے خلاف سیاسی وابستگی سے قطع نظر کارروائی کی جا رہی ہے۔
سرکاری زمین سے تجاوزات ختم کرنے کے ساتھ ساتھ وہ زمینیں اور دیگر غیر منقولہ جائیدادیں بھی واپس لی جا رہی ہیں، جن پر 2001 میں پاس کیے گئے جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ ایکٹ (روشنی ایکٹ) کے تحت مکینوں کو مالکانہ حقوق حاصل ہوئے تھے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کو 2018 میں منسوخ کیا گیا تھا اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے بھی اس کے تحت عمل میں لائی گئی الاٹمنٹس کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا تھا۔ ان زمینوں اور جائیدادوں کو ان پر قابض افراد سے چھڑانا ہرگز غیر قانونی یا غیر اخلاقی عمل نہیں ہے۔
انہدامی کارروائی پر عوامی ردِ عمل کو دیکھتے ہوئے لیفٹننٹ گورنر سنہا نے یقین دلایا ہے کہ نادار لوگوں اور سماج کے کمزور طبقات سے وابستہ افراد کو اس کی زد میں نہیں آنے دیا جائے گا۔
انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ اس کارروائی کا مقصد ان بڑے بڑے مگر مچھوں سے وہ سرکاری زمین واپس لینا ہے، جن پر انہوں نے 1947 کے بعد اپنے سیاسی اثر و رسوخ ، طاقت اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قبضہ کیا تھا۔نادار لوگوں کو نہیں چھیڑا جائے گا، وہ بے فکر رہیں۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر: عسکریت پسندوں کو پناہ دینے والوں کے مکانات ضبط اور مسمار کرنے کی کارروائیاںبی جے پی کی جموں و کشمیر شاخ کے صدر رویندر رینہ نے یقین دلایا تھا کہ جن لوگوں کے استعمال میں چار کنال (نصف ایکڑ) یا اس سے کم سرکاری زمین ہے اسے ان سے واپس نہیں لیا جائے گا بلکہ اسے ان کے حق میں باقاعدہ بنایا جائے گا۔
مقامی اخبارات میں چھپی خبروں کے مطابق کئی ایسے نجی گھروں کو بھی مسمار کیا گیا ہے جو چند مرلہ زمین پر بنائے گئے تھے۔
ضلع بڈگام کے کنہ دجن گاؤں کے ایک شہری سلطان احمد ڈار نے 'کشمیر لائف' نامی نیوز پورٹل کو بتایا کہ گورنر کی یقین دہانی سراب ثابت ہوئی کیوں کہ ان سے زمین کا وہ ٹکڑا چھن گیا ہے جس پر ان کے دادا نے 1959 میں سیب کے درخت لگائے تھے اور تین کنال پر مشتمل یہ میوہ باغ پورے کنبے کے لیے روزگار کا بنیادی ذریعہ تھا۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے محکمۂ مال کی طرف سے گزشتہ دنوں متعارف کرائے گئے 'جموں و کشمیر لینڈ گرانٹ رولز 2022' کے تحت جن لوگوں نے سرکاری اراضی لیز پر لے رکھی ہے یہ مدت ختم ہونے پر معاہدے کی توسیع نہیں کی جائے گی بلکہ یہ زمین حکومت کو واپس کرنی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اسے سرکاری احاطے پر غیر قانونی قبضے کو ہٹانے سے متعلق قانون مجریہ 1988 پر عمل درآمد ہوگا جب کہ قابضین کو زبردستی بے دخل کیا جائے گا۔
حکومت کے اس اقدام نے بھی مقامی آبادی بالخصوص تاجر برادری میں سراسیمگی پھیلا دی جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو شدید تنقید کا ہدف بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا یہ اقدام علاقے کی معیشت پر براہِ راست حملہ ہے۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں جماعتِ اسلامی کے اثاثے ضبط کرنے کی مہم تیز، وجوہات کیا ہیں؟تاہم حکام کا کہنا ہے کہ واگزار کی گئی اراضی اور املاک کو عوامی بہبو د کے کاموں پر اور جموں و کشمیر کے مفاد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ریاست کی حکومت کے حالیہ اقدامات پر بی جے پی کے رہنما دیویندر سنگھ رانا نے کہا ہے کہ تجاوزات کے خلاف جاری مہم سے عام لوگوں میں جو خدشات پیدا ہوئے ہیں حکومت کو انہیں دور کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کو اس سلسلے میں باضابطہ حکم نامہ جاری کرنا چاہیے تاکہ عام لوگ اس مہم سے متاثر نہ ہوں جب کہ سیاسی مفادات رکھنے والے عناصر کے منہ بھی بند ہوں۔
قبل ازیں بھارت کی سپریم کورٹ نے سرکاری اراضی پر ناجائز قبضوں اور تجاوزات کو ہٹانے کے حکم نامے پر پابندی لگانے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
چند شہریوں کی طرف سے عدالتِ اعظمیٰ میں دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی کیوں کہ اس سے زمین پر قبضہ کرنے والوں کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔