بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی حکومت کے متعارف کرائے گئے نئے لینڈ گرانٹ رولز نے مقامی آبادیوں بالخصوص تاجر برادری کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام علاقے کی معیشت پر براہ راست حملہ ہے۔
خیال رہے کہ نئے لینڈ گرانٹ رولز کے تحت لیز پر دی گئی سرکاری اراضی کی لیز کی مدت ختم ہونے پر معاہدے کی توسیع نہیں کی جائے بلکہ اسے 'لیسی' یعنی لیز کے ذریعہ جائداد لینے والے لوگوں سے واپس لیا جائے گا۔
لیز شرائط و ضوابط کے ساتھ دو فریقوں کے درمیان ایک قانونی اور پابند معاہدہ ہے، جس میں ایک فریق دوسرے فریق کو اپنی ملکیت والی جائیداد کرائے پر دینے پر راضی ہوتا ہے۔ جائیداد لیز پر لینے والی پارٹی کو 'لیسی' کہا جاتا ہے جب کہ جائیداد کی مالک پارٹی کو 'لیسر' کہا جاتا ہے۔
بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں 1986 سے پہلے رائج قانون کے تحت ریاستی یا سرکاری اراضی اور دیگر جائیداد کو 'لیسی' کو 99 سال کے لیے کرایے پر دیا جاتا تھا ۔ لیکن بعد میں اس قانون میں ترمیم کرکے اس مدت کو کم کرکے 40 سال کردیا گیا۔
نئے ضوابط کے تحت لیز ختم ہونے پر سرکاری اراضی کو لوٹانا ہوگا
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے محکمۂ مال کی طرف سے گزشتہ دنوں متعارف کرائے گئے 'جموں و کشمیر لینڈ گرانٹ رولز 2022' کے تحت جن لوگوں نے سرکاری اراضی یا کوئی اور جائیداد لیز پر لے رکھی ہے، اس کی مدت ختم ہونے پر طرفین کے درمیان معاہدے کی توسیع نہیں کی جائے گی بلکہ لیسی کو اس زمین یا جائیداد کو حکومت کو واپس کرنا ہوگا۔
اگر لیسی نے ایسا نہیں کیا تو اسے سرکاری احاطے پر غیرقانونی قبضے سے متعلق قانون پر عمل کرتے ہوئے زبردستی بے دخل کردیا جائے گا۔
اس کے علاوہ لیسی نے اراضی پر جو بنیادی ڈھانچہ کھڑا کیا ہوگا، ماہرین پر مشتمل ایک سرکاری کمیٹی اس کی ایک قیمت لگائے گی جسے جگہ خالی کرنے والے لیسی کو ادا کردیا جائے گا۔تاہم اس معاملے میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ لیسی نے لیسر کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔
مہاجرین کو متروکہ جائیدادیں لوٹانے کا بل قانون نہ بن سکا
نئے لینڈ گرانٹ رولز کی اس شق کا اطلاق رہائشی مقاصد کے لیے لیز پر لی گئی زمین یا جائیداد پر نہیں ہوگا اور نہ اسے جائیدادِ متروکہ کے لیےعمل میں لایا جائے گا۔
خیال رہے کہ 1970 کی دہائی میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کشمیر ی رہنما شیخ محمد عبداللہ نے ریاست کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کثرت رائے سے ایک بل 'جموں و کشمیر دوبارہ آباد کاری ایکٹ' کے نام سے پاس کرایا تھا۔ اس کے تحت 1947 میں تقسیم کے موقعے پر یا اس کے بعد پاکستان اور پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں ہجرت کرنے والے جموں کشمیر کےباشندے یا ان کے قانونی وارث واپس آکر جائیدادِ متروکہ کو واپس حاصل کرسکتے تھے۔
البتہ اس ایکٹ کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ تاہم اس معاملے پر ابھی تک سماعت نہیں ہوئی ہے ۔
محکمۂ مال کے مطابق نئے لینڈ گرانٹ رولز کے تحت جموں و کشمیر لینڈ گرانٹ رولز 1960 اور نوٹیفائیڈ ایئر یا لینڈ گرانٹ رولز 2007 کے مطابق جو بھی اراضی رہائشی مقاصد کے سوا لیز پر دی گئی ہے اسے لیز کی مدت ختم ہونے پر سرکار کو واپس کرنا ہوگا۔
حکومت واپس لی گئی اراضی کو کن مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے؟
محکمے کا کہنا ہے کہ حکومت ریاستی اراضی کو تعلیمی، حفظانِ صحت، زرعی اور دیگر متعلقہ سرگرمیوں جیسے سیاحت، اسکل ڈیولپمنٹ، روایتی آرٹ، کرافٹ، کلچر اور زبانوں کے فروغ، پن بجلی منصوبوں ،کھیلوں اور دوسرے تفریحی مقاصد سمیت پیٹرول اور گیس اسٹیشنوں جیسے دیگر کاموں کے لیےالاٹ کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایسی اراضی کو سابق فوجیوں، جنگوں میں لڑنے والے سپاہیوں کے بیواؤں، ملک کے لیے جان دینے والے افرادلے لواحقین، معذور افراد، قدرتی آفات میں بے گھر ہونے والے خاندانوں، مہاجر مزدوروں و غیرہ کو گھروں کی تعمیر اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دینے کے لیے فراہم کیا جا سکتا ہے۔
نئے ضوابط کے تحت اس اراضی کو عوامی بہبو د کے کاموں پر اور کسی بھی ایسے مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا جو جموں و کشمیر کے مفاد میں ہو اور اس کا تعین حکومت کرے گی۔
اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ جس کے سربراہ محکمۂ مال کے فنانشل کمشنر ہوں گے۔ ٹیم میں مختلف سرکاری محکموں کے افسران بھی شامل ہوں گے۔ کمیٹی کو ہر لیز معاہدے کو جانچنے اور اسے منسوخ کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔
سیاسی جماعتوں کا اعتراض
حکومت کے اس فیصلے نے علاقے میں ایک نئے سیاسی تنازعے کو جنم دیا ہے۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومتی اقدام کو جموں و کشمیر کے لوگوں اور معیشت پر براہِ راست حملہ قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ نئے لینڈ گرانٹ رولز 5 اگست 2019کو اور اُس کے بعد حکومتِ بھارت کی طرف اٹھائے گئے ان اقدامات اور فیصلوں کی تازہ کڑی ہیں جن کا مقصدمقامی لوگوں کو مکمل طور پر بے اختیار کرنا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت نے5 اگست 2019کو جموں و کشمیر کی نیم آئینی خود مختاری کو ختم کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بنا دیا تھا ۔اس کے ساتھ ہی یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیرمیں، جو ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے، کے نافذ قوانین کو بدلنے یا ان میں ترامیم کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو اب تک جاری ہے۔
بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی کہتی ہیں کہ ''جس طرح اسرائیل فلسطین میں لوگوں کی زمینیں چھین کر وہاں یہودیوں کو بسا رہا ہے اُسی طرح بھارتی حکومت نے بھی یہاں اسی طرح کی پالیسی پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔''
انہوں نے کہا کہ''جب میں وزیرِ اعلیٰ تھی تو نئی دہلی نے جموں و کشمیر میں فوجی کالونیاں بنانے کی بات کی تھی لیکن میں نے اس کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی زمین پر کسی کو آبادکرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
ایک اورسابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے کہا ''اُن لوگوں کو جو لیز پر لی گئی اراضی سے دہائیوں سے روزگار کمارہے ہیں بے دخل کرنے کی بجائے حکومت کو چاہیے کہ نئے علاقوں کو سیاحتی نقشے پر لائے تاکہ وہاں بنیادی ڈھانچہ کھڑا کیا جاسکے اور مزید لوگوں کے لیےروز گار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔''انہوں نے نئے لینڈ گرانٹ رولز کو جموں و کشمیر کے عوام کے مفادات پر شب خون مارنے کے مترادف قرار دیا۔
محبوبہ مفتی کے بقول نئے لینڈ گرانٹ رولز ہوٹل مالکان اور کاروباری افراد اور ان سے جڑے لاکھوں افراد کے روزگار پر براہ راست حملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ''دکان داروں، سیاحت سے جڑے ہوئے لوگوں اور دیگر تاجروں و صنعت کاروں کا روزگار اس پر منحصر ہے۔برسوں سے لوگ اس زمین پر آباد ہیں یا کاروبار کررہے ہیں اور اب انہیں بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس کا مقصد مقامی لوگوں کو مکمل طور پر بے اختیار بنانا ہے۔''
جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین اور سابق وزیر سجاد غنی لون نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ'' نئی لینڈ پالیسی ملک میں رائج قانون و ضوابط کے مطابق نہیں ہے۔ یہ ان کشمیریوں کے لیے جن کے ساتھ اب امتیاز برتا جا رہا ہے، ایک سیاہ باب کا نقطۂ آغاز ہوسکتا ہے۔پوری دنیا اور بھارت میں لیز ضوابط بالکل سادہ ہیں لیکن نئے لینڈ رولز مختلف ہیں اور یہ کسی درپردہ مقاصد کے بغیر نہیں ہیں۔''
سابق وفاقی وزیر اور اپوزیشن رہنما پروفیسر سیف الدین سوز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ '' نئی دہلی اور جموں کشمیر کو آپس میں جوڑنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔ ارباب اقتدار بالخصوص وزیرِاعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیت بھی ٹھیک نہیں لگتی ہے۔ وہ جموں و کشمیر کے عوام کوبالکل بے اختیار اور ریاست کو اس کے اثاثوں سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں ۔''
انہوں نے مزید کہا کہ نئے لینڈ گرانٹ رولز جیسے اقدامات سے نئی دہلی اور جموں و کشمیر کے مابین دوریاں بڑھیں گی جو بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔
تاجر برادری کیا کہتی ہے؟
تاجر برادری اور دیگر اسٹیک ہولڈرز جو ریاستی اراضی کو لیز پر لے کر اس پر ہوٹل اور دیگر تجارتی مراکز، صنعتی یونٹ اور تعلیمی ادارے قائم کیے ہوئے ہیں ، کہتے ہیں کہ حکومتی اقدام کا پہلا نتیجہ ہزاروں لوگوں کی بے روزگاری کی صورت میں سامنے آئے گا۔
کشمیر ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر شیخ عاشق نے وی او اے کو بتایا کہ '' پہلگام، گلمرک ، پتنی ٹاپ اور دیگر مقامات پر اسی سے نوےفیصد ہوٹل، مہمان خانے، تفریحی کلب، دکانیں اور دوسرے تجارتی مراکز سرکار سے لیز پر لی گئی اراضی پر قائم ہیں۔کشمیر کے صدر مقام سرینگر کے سیاحتی مقامات کی بھی کم و بیش یہی صورتِ حال ہے۔ اگر حکومت لیز پر دی گئی زمینیں اور دیگر جائیدادیں واپس لیتی ہےتو ہزاروں کی تعداد میں لوگ روز گار سے محروم ہوجائیں گے۔''
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت روز گار کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی بات کررہی ہے، دوسری جانب ایسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جن سےلوگوں کا روزگار چھن جائے گا۔''
جموں و کشمیر ہوٹلئرس کلب کے سیکریٹری جنرل طارق گانی بے ڈبہ نے کہا ''نئے لینڈ گرانٹ رولز اُن لوگوں کے مفادات پر حملہ ہے جوریاستی اراضی کو لیز پر لے کر اس پر مختلف تجارتی سرگرمیاں چلارہے ہیں ۔ یہ اُن ہزاروں افراد کے مُنّہ کا نِوالہ چھینے کے مترادف بھی ہے جو وہاں اپنا روزگار کمارہے ہیں۔''
انہوں نے کہا ''پوری دنیا میں سرکاری زمین تواضح کی صنعت قائم کرنے ، سیاحت کو فروغ دینے، تعلیمی ادارے اوردوسرے مراکز کھڑا کرنے کے لیےلیز پر لی جاتی ہے اور پھر اس کی وقتاً فوقتاً توسیع کی جاتی ہے۔ لیکن حکومت ہمارے لیے ایک بڑی مشکل کھڑی کر رہی ہے۔''
ان کے بقول حکومت کو چاہیے کہ وہ بے دخل کرنے کے بجائے ایسی ہر پراپرٹی کے لیےلیز ہولڈر سے''مناسب پریمیم '' کا تقاضا کرے اور جو لیسی اسے ادا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے صرف اُس کی لیز میں توسیع سے انکار کیا جائے۔
حکومت کا فیصلے کا دفاع
تاہم بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے حکومتی اقدام کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ اراضی قوانین میں عام لوگوں کی سہولت اور انہیں فائدہ پہنچانے کے لیے ضروری ترامیم کی جارہی ہیں۔
انہوں نے دارالحکومت سرینگر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ''یہاں کے اراضی قوانین رجعت پسندانہ تھے اور انہیں عام لوگوں کی مفاد میں ترتیب نہیں دیا گیا تھا۔ لہٰذا اب ان میں عام لوگوں کی سہولت کے لیے ضروری ترامیم کی جارہی ہیں۔اس وقت عدالتوں میں زیرِ سماعت 40سے 45 معاملے اراضی پر تنازعات سے متعلق ہیں۔''