شدید نظریاتی اختلافات کے باوجودسعودی عرب اور ایران نے گزشتہ ہفتے چین کی ثالثی کے بعد اپنے دو طرفہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا۔ عالمی منظر نامے پر اس بڑی پیش رفت کو تجزیہ کار مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں بلکہ دنیا کی سیاست میں نئی سیاسی صف بندیوں کے پیش خیمے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
لیکن جنوبی ایشیا کے دو بڑے ملک بھارت اور پاکستان کے درمیان برسوں سے سرد تعلقات ہیں جس کی وجہ سے ان دونوں کےمعاشی، تجارتی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد بھی نہیں ہوپاتا۔
تجزیہ کاروں اور مبصرین کے خیال میں سعودی عرب اور ایران جیسے سخت مخالف ممالک کے ایک دوسرے سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں بھارت اور پاکستان کے لیے بھی سبق موجود ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحال ہونا تقریباًناممکن ہی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی خاص طور پر معاشی اور تجارتی تعلقات کی بحالی سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے کو نظرانداز کرکے ترقی اور استحکام کے خواب کو سچ نہیں کرسکتے۔
پاکستانی کاروباری شخصیت زبیر موتی ولا کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ جب بھی دو معیشتوں کے درمیان تعلقات ہوتے ہیں تو چھوٹی معیشت کے حامل ملک کو فائدے سمیٹنے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ ایسا ہی پاکستان اور بھارت کے تناظر میں بھی ہے۔
ان کے بقول پاکستان اور بھارت کے تجارتی اور معاشی تعلقات بحال ہونے سے پاکستانی تاجروں کو بھارت کی ایک ارب 25 کروڑ لوگوں پر مشتمل مارکیٹ دستیاب ہوگی جب کہ بھارتی تاجروں کو بدلے میں 22 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ملے گی۔
SEE ALSO: انٹرنیٹ تک عوام کی رسائی روکنے میں بھارت دنیا بھر میں سر فہرستان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات پھر سے استوار ہونا آسان نہیں ہے۔ ان کے بقول بھارت پاکستان کے ساتھ تجارت میں سنجیدہ نظر نہیں آتا اور ماضی میں بھی اس نے اپنی صنعتوں اور مصنوعات کے تحفظ کے لیے پاکستانی مصنوعات پر بھارتی محصولات یعنی نان ٹیرف بیریئرز عائد کیے تھے جس سے وہاں پاکستانی مصنوعات کو برآمد کرنا انتہائی مہنگا ہوجاتا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت نے اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے پر پڑوسی ملک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات میں معطلی کے ساتھ بس اور ٹرین سروس بھی بند کردی تھی جب کہ دونوں ممالک کے درمیان ہوائی سروس اس سے قبل ہی بند ہوئی تھی۔
پاکستان کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے پر بھارت پر برہم ہے تو بھارتی حکومت اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کا الزام پاکستان پر عائد کرکے تعلقات دوبارہ سے بحال کرنے کے بارے میں کوئی لچک دکھانے سے گریزاں ہے۔
بھارتی اخبار اکنامک ٹائمز نے رواں سال فروری میں ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ سال کے آخری نو ماہ میں تجارتی حجم ایک ارب 35 کروڑ ڈالر رہا، یہ تجارتی آمد و رفت زیادہ تر تیسرے ملک یعنی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے راستے ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان صرف ادویات، بعض کیمیکلز اور کچھ اور مخصوص اشیا کی ہی محدود پیمانے پر براہ راست تجارت ہوتی ہے۔
دوسری جانب رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں چین اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم 87 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ماہر اقتصادیات اور کراچی کے معروف تعلیمی ادارے آئی بی اے کے ڈائریکٹر سید اکبر زیدی کا کہنا ہے کہ پڑوسیوں کو تبدیل کرنا ناممکن ہے اس لیےپاکستان اور بھارت دونوں کو اپنے تعلقات درست کرنا ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول بھارت مستقبل قریب میں عالمی ترقی کا مرکز بننے والا ہے اور ہم اسے نظر انداز کرکے نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان نے بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر نہیں کیا تو اس کی معاشی طور پر بھی بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ایسے مسائل پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو اپنی خارجہ، فوجی اور سفارتی پالیسیوں پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے۔
انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز نئی دہلی کے تجزیہ کار اور محقق ذاکر حسین کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے وہ پریشان کن ہے۔ معاشی بحران سے ملک کے مستقبل پر سوالات اٹھ گئے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں بھارت کو اپنے وسائل کے تحت پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔دونوں ممالک کو معاشی اور تجارتی تعلقات استوار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان 10 سے 20 ارب کے درمیان تجارتی حجم کے اندازے ہیں اور جب پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر تھے تو تقریباً پانچ ارب ڈالر کی تجارت کی جاتی رہی ہے۔
ان کے بقول اگرچہ یہ تجارتی توازن ہمیشہ بھارت کے حق میں رہا ہے لیکن پاکستانی مصنوعات جیسے ملبوسات، مسالہ جات، کھیل کا سامان اور دیگر کا بھارت میں کوئی مقابلہ نہیں تھا اور بھارت میں ان مصنوعات کی بڑی مارکیٹ تھی۔دونوں ممالک اب بھی ایک دوسرے کی کوئی نہ کوئی مصنوعات استعمال کررہے ہیں لیکن وہ دبئی یا سنگاپور کے راستے آتی ہیں یا پھر اسمگلنگ کے ذریعے پہنچتی ہیں اور حکومتوں کو اس سے ٹیکس حاصل نہیں ہوپاتا۔
ذاکر حسین نے بتایا کہ نئی دہلی اب بھی اسی مؤقف پر قائم ہے کہ تجارت اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس لیے اس وقت دونوں ممالک کے درمیان جو بھروسے کا فقدان ہے اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور آنے والے برسوں میں کہا جا رہا ہے کہ وہ تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔بھارت دنیا میں کم لاگت مینوفیکچرنگ کے مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے، یہ پاکستان کی مدد کر سکتا ہے اور اسے کرنی بھی چاہیے۔
ذاکر حسین کے بقول پاکستان کو بھی بھارت کو موسٹ فیوریٹ نیشن کا درجہ دے کر تجارتی تعلقات کو آگے لے کر جانا چاہیے جب کہ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کے پلیٹ فارم سے ساؤتھ ایشیا فری ٹریڈ ایگریمنٹ(سافٹا) کے تحت بھی دونوں ممالک بلکہ پورا خطہ تجارت بڑھا سکتا ہے۔
SEE ALSO: امریکی انٹیلی جنس رپورٹ؛ کیا واقعی بھارت کی چین یا پاکستان سے جنگ ہو سکتی ہے؟ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک بڑی آبادی والا ملک ہے اور وہاں ہونے والے عدم استحکام کے اثرات بلاواسطہ یا بلواسطہ بھارت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ 2019 میں پاکستان اور بھارت میں کشیدگی میں اضافے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کردیے تھے وہیں بھارت نے بھی 1996 میں پاکستان کو دیا جانے والا موسٹ فیوریٹ نیشن یعنی تجارت کے لیے سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا اور پاکستان سے بھارت برآمد ہونے والی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی میں 200 فی صد اضافہ کردیا تھا۔
زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بھارت پاکستان کی تجارت کھلتی ہے تو پاکستان کو بہت سا خام مال جیسے روئی وغیرہ بھارت سے منگوانے میں سفری لاگت میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ بہت سا اناج، سبزیاں اور دیگر اشیا کے درآمدی بل میں کمی لائی جاسکتی ہے جس سے پاکستان کے تجارتی خسارے اور جاری کھاتوں کے خسارے میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال تاریخی سیلاب کے بعد غذائی اشیا کی قلت پر قابو پانے کے لیےاس وقت کے وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ بھارت سے غذائی اشیا کی درآمد پر حکومت مشاورت کررہی ہے تاہم دفتر خارجہ نے اس کے چند روز بعد جاری اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی بھارت سے تجارت سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔