روس کے بڑے وفد کا دورۂ پاکستان: 'امریکہ سے دُوریاں دونوں ملکوں کو قریب لا رہی ہیں'

  • ایس سی او اجلاس میں روس کے بڑے وفد کی آمد کو دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔
  • اجلاس میں شرکت کے علاوہ روسی وفد نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور دیگر حکام سے الگ ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
  • امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں سردمہری کے باعث پاکستان روس اور چین کے مزید قریب ہو رہا ہے۔
  • یہ بات درست ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنا بڑا روسی وفد پاکستان آیا ہے: تجزیہ کار تیمور فہد خان
  • روس پر بہت سی عالمی پابندیاں عائد ہیں اور پاکستان کے لیے اس کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانا آسان نہیں ہو گا: تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں روسی وزیرِ اعظم کی بڑے وفد کے ہمراہ پاکستان آمد کو دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

اجلاس میں شرکت کے علاوہ روسی وفد نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور دیگر حکام سے الگ ملاقاتیں بھی کی ہیں۔

ملاقاتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت سمیت توانائی اور دیگر اہم امور پر بات چیت کی گئی۔

یہ اہم ملاقاتیں ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب کچھ دن قبل پاکستان اور روس کے درمیان بارٹر ٹریڈ کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا ہے جب کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل 'ایس آئی ایف سی' کے تحت بھی پاکستان نے روس کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی ہے۔

روس کا اتنا بڑا وفد پاکستان کیوں آیا؟

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے میں قربتوں کی بڑی وجہ مشکل معاشی حالات میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کی مدد نہ کرنا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان نئے راستے تلاش کر رہا ہے اور روس بھی پاکستان کو چین کے زوایے سے دیکھتے ہوئے اس کے قریب ہو رہا ہے۔

اس کانفرنس کے لیے روس سے 100 سے زائد افراد پر مشتمل ایک وفد روسی وزیراعظم میخائل مشوستن کی قیادت میں پاکستان پہنچا تھا۔ اسلام آباد میں روسی وزیرِ اعظم کی ملاقات پاکستانی وزیرِ اعظم اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ہوئی۔

ملاقات میں روس کے ساتھ د طرفہ سیاسی، اقتصادی اور دفاعی مذاکرات کو تیز کرنے کی پاکستان کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔

وزیرِ اعظم نے پاکستان اور روس کے مابین مواصلاتی روابط کے فروغ کے لیے براہ راست پروازوں کی اہمیت پر زور دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تجارت، صنعت، توانائی، علاقائی روابط، سائنس، ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں مضبوط بات چیت اور تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔

ماضی میں پاکستان کو امریکہ کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا تھا اور اس بنا پر پاکستان روس سے فاصلہ رکھتا تھا۔ لیکن ماہرین کے مطابق اب اس مؤقف میں تبدیلی آ رہی ہے اور ایس سی او سمٹ میں بڑے روسی وفد کی آمد تعلقات میں وسعت کی نشانی ہے۔

اسی کانفرنس سے دو روز قبل پاکستان اور روس کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہوئی ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ریسرچ ایسوسی ایٹ تیمور فہد خان کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنا بڑا روسی وفد پاکستان آیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں روس کے نائب وزیرِ اعظم کچھ دن پہلے پاکستان آئے تھے اور ان کے دورے کے بعد پاکستان سے 50 سے 60 تاجروں کا ایک وفد روس گیا تھا جہاں بارٹر ٹریڈ کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔

ایس سی او میٹنگ کے دوران بھی اس وفد نے پاکستان کے مختلف حکام سے ملاقاتیں کیں اور بالخصوص روسی وزیرِ اعظم کی شہباز شریف سے تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں مختلف شعبوں پر بات چیت کی گئی۔

تیمور فہد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور روس کے درمیان اس وقت باہمی تجارت ایک ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ اگرچہ دیکھا جائے تو یہ نمبر بہت زیادہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی ماضی قریب میں پاکستان اور روس کے درمیان جو تعلقات رہے ہیں ان میں روس کے ساتھ اتنی تجارت ہونا بھی بہت بڑی بات ہے۔

اُن کے بقول پاکستان اور روس کے درمیان تجارت کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے اور دونوں ممالک اس پر زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ امکان ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید آگے بڑھیں گے۔

تیمور فہد خان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دُوریوں نے روس اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے پیشِ نظر روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو مزید بڑھائے گا۔

روس پر عالمی پابندیاں تجارت میں رکاوٹ؟

تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستان اور روس کے درمیان بڑے پیمانے پر کوئی اشتراک ہونے جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ روس کا عمومی طور پر کلچر ہے کہ جب ان کے اعلیٰ حکام کہیں سفر کرتے ہیں یا کسی کانفرنس میں شرکت کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ایک بڑا وفد شریک ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تجارت میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے بہت سے مشکل مراحل ہیں۔ اس وقت روس اور بھارت کے درمیان تیل کی تجارت بھارتی روپوں میں ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول اگر پاکستان اس حوالے سے کوشش کرے تو پاکستانی روپے یا پھر چینی یوآن میں بھی یہ تجارت کی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے دونوں ملکوں کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔

ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ روس پر بہت سی عالمی پابندیاں عائد ہیں اور پاکستان کے لیے اس قدر آسان نہیں ہو گا کہ وہ روس کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنائے۔