دنیا کی سات بڑی جمہوری اقتصادی طاقتوں نے اتوار کے روز روس کو خبردار کیا کہ وہ یوکرین کی سرحد کے نزدیک فوج کی بڑی تعداد میں کمی لائے یا، پھر، ان کے بقول، معاشی شعبے میں سنگین نتائج کا سامنا کرے۔
وائس آف امریکہ کے لیے کین بریڈمئر کی رپورٹ کے مطابق جی سیون کے وزراء خارجہ کے لیورپول میں ہونے والے اجلاس میں انگلینڈ اور یورپی یونین کے غیر ملکی معاملات کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ وہ روسی فوجوں میں اضافے اور یوکرین کے لیے اس کے جارحانہ بیانات کی مذمت کرنے میں متحد ہیں۔
امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی اور جاپان نے ماسکو پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرے اور اپنی فوجیوں کی سرگرمیوں میں شفافیت کے معاملے پر بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کرے۔
امریکی انٹیلی جنس عہدیداروں کا خیال ہے کہ روس نے یوکرین کی مشرقی سرحد پر 70 ہزار کے قریب فوج بٹھا رکھی ہے اور روس ہو سکتا ہے کہ اپنے پڑوسی ملک یوکرین پر سال 2022ء کے شروع میں حملے کے لیے تیاری کر رہا ہو۔ دوسری جانب روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا ہے کہ انہوں نے فوجوں میں اضافے کا فیصلہ حملے کے نقطہ نظر سے نہیں کیا ہے۔
SEE ALSO: 'امریکہ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کا جواب سخت اقتصادی پابندیوں سے دے گا'جی سیون ممالک کے مشترکہ بیان میں روس کو سخت الفاظ میں متنبہہ کیا گیا ہے۔
’’ اپنی سرحدوں کو تبدیل کرنے کے لیے کسی طرح کے حملے کی بین الاقوامی قوانین میں ممانعت ہے۔ روس کو اس بارے میں شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ یوکرین کے خلاف کسی بھی طرح کی فوجی جارحیت کے جواب میں اسے سنگین اقتصادی نتائج کی صورت بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘
سات بڑی معیشتوں کی جانب سے اس انتباہ سے قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھی گزشتہ ہفتے ایک ورچوئل اجلاس کے دوران اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن کو اس طرح کے نتائج سے خبردار کیا تھا۔
کانفرنس کے میزبان برطانیہ کی وزیر خارجہ لز ٹروس نے کہا کہ جی سیون ممالک روس پر اقتصادی پابندیوں کے لیے تمام راستوں پر غور کر رہے ہیں۔
بائیڈن یوکرین پر روس کے ممکنہ حملے کی صورت میں کسی طرح کے فوجی ردعمل کو مسترد کر چکے ہیں۔ اس سے قبل سابق صدر براک اوباما نے بھی، جب بائیڈن نائب صدر تھے، روس کی جانب سے سال 2014 میں کریمیا کو یوکرین سے الگ کرنے پر کوئی فوجی اقدام نہیں کیا تھا۔
صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ معاشی پابندیاں روس کی معیشت کے لیے زیادہ تباہ کن ہوں گی۔
سال 2014 کے بعد سے امریکہ نے روس کے خلاف جو اقدامات کیے ہیں ان میں ماسکو کو جی ایٹ ممالک سے نکالنا، اس پر پابندیاں عائد کرنا، سفارتکاروں کی ملک بدری اور روس کے اثاثوں کا منجمد کرنا بھی شامل ہیں۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے این بی سی ٹیلی وژن کے پروگرام ’ میٹ دا پریس‘ میں کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے کے نئے خطرات پر ہم ایسے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں جن سے ہم نے ماضی میں گریز کیا ہے، ان کے بقول، ان اقدامات کے روس کے لیے بڑے سنگین نتائج ہوں گے۔
’’میرے خیال میں لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یوکرین ایک اہم ملک ہے اور ہم اس کی سالمیت کے لیے محکم عزم رکھتے ہیں۔‘‘
انہوں نے اس پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ '’ایک اور چیز جو بڑی اہم ہے، وہ ہے بین الاقوامی نظام کے لیے بنیادی قوانین۔ اور قوانین کہتے ہیں کہ کوئی بھی ملک طاقت کے ذریعے کسی دوسرے ملک کی سرحدیں تبدیل نہیں کر سکتا۔ کوئی ایک ملک دوسرے ملک پر اپنے فیصلے، اپنی خواہشات اور اپنی خارجہ پالیسی مسلط نہیں کر سکتا'‘۔
اینٹنی بلنکن نے کہا کہ کوئی بھی ملک دوسرے پر اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کر سکتا جبکہ روس ایسا کر رہا ہے۔ ان کے بقول، اگر اس چیز کو جانے دیا گیا تو استحکام اورجنگوں کو روکنے کا نظام خطرے میں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب بہت اہم ہے۔
روس کے صدر پوٹن نے مغرب پر اس بحران کا الزام عائد کیا ہے کیونکہ اس نے، ماسکو کے بقول، یوکرین کو نیٹو کے فوجی اتحاد میں یوکرین کی شمولیت کے امکانات کی تردید سے انکار کر دیا ہے۔ نیٹو اتحاد دوسری جنگ عظیم کے بعد تشکیل دیا گیا تھا جو یورپ میں مغربی اثر و رسوخ کو بڑھاتا ہے اور روس اس کا مخالف ہے۔