قذافی کے وارنٹ گرفتاری ملک سے فرار کےبعدجاری ہونے چاہیئے تھے: بوسٹن گلوب

قذافی کے وارنٹ گرفتاری ملک سے فرار کےبعدجاری ہونے چاہیئے تھے: بوسٹن گلوب

اخبار کہتا ہے کہ اِس طرح، اِس عدالت نے انصاف کا تقاضہ تو پورا کردیا ہے، لیکن یہ فیصلہ غلط وقت پر آیا ہے۔ اگر اِس کی وجہ سے قذافی محفوظ جلا وطنی کا کوئی سودا نہ کرسکے تو اُس صورت میں اِس وارنٹ گرفتاری کی وجہ سے زیادہ جانیں ضائع ہوجائیں گی

جیسا کہ خبروں میں آپ نے سنا ہوگا، جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر قذافی کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔ اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے ’بوسٹن گلوب‘ اخبار کہتا ہے کہ اِس طرح، اِس عدالت نے انصاف کا تقاضہ تو پورا کردیا ہے، لیکن یہ فیصلہ غلط وقت پر آیا ہے۔ اگر اِس کی وجہ سے قذافی محفوظ جلا وطنی کا کوئی سودا نہ کرسکے تو اُس صورت میں اِس وارنٹ گرفتاری کی وجہ سے زیادہ جانیں ضائع ہوجائیں گی۔

وارنٹ جاری کرنے کے حامیوں کا اب یہ استدلال ہے کہ تاخیر کرنے میں کوئی مصلحت نہیں ہے، کیونکہ قذافی اوراُن کے بیٹے سیف نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ آخر دم تک لڑتے رہیں گے۔ لیکن، اِس کے ساتھ ساتھ، تیونس کی سرکاری خبررساں ایجنسی کے مطابق قذافی کے وزیر تیونس میں ہیں جہاں وہ غیر ملکی فریقوں کے ساتھ لیبیا کے ڈکٹیٹر کو جلاوطن کرنے کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں۔

اخبار کے خیال میں یہ بہترہوتا کہ قذافی کےملک سے فرار ہونے کےبعد ہی گرفتاری کےوارنٹ جاری کیے جاتے۔

’لاس ویگس سن‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جِس سُرخ خطرے کا ہّوا کھڑا ہوا تھا، اُس سےیاد تازہ ہوتی ہےاُن کمیونسٹ فوجی پریڈوں کی جِن میں راکیٹوں کی نمائش ہوتی تھی اور اُن غیر ملکی ڈکٹیٹروں کی جو تقریر کرتے ہوئے میز پر مکّے مارا کرتے تھے، اور وس کانسن کے سینیٹر جوریف میکارتھی ٹیلی ویژن پر اُن امریکیوں کی گَت بناتے نظر آتے تھے، جِن کی وفاداری پر وہ شک کرتےتھے۔

یہ دور سرد جنگ کا دور تھا جب بعض سیاست داں امریکی عوام کے وسوسوں سے کھیلتے تھے۔

اخبار کہتا ہے کہ خیال تو یہی تھا کہ امریکی تاریخ کا یہ افسوس ناک باب اب ختم ہوچکا ہے، لیکن نِواڈا کے ایک ضمنی انتخاب کے ری پبلیکن امیدوار مارک اموڈی نے اپنے انتخابی اشتہاروں میں سُرخ خطرے کا ہوّا پھرکھڑا کردیا ہے اور کہا ہے کہ صدر اوباما امریکہ کو چین کے حوالے کر رہے ہیں۔

حتیٰ کہ، اُن میں ایک منظریہ بھی ہے جِس میں چینی فوج کو واشنگٹن میں پریڈ کرتے دکھایا گیا ہے۔ پھر ایک چینی نشرئے میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ قرض سے حاصل کردہ رقوم وہ فضول خرچی میں اُڑا رہا ہے اور صدر اوباما قرض لینے کی حد بڑھا رہے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ سب سے خوفناک بات جو اِن پوسٹروں میں نہیں بتائی گئی ہے یہ ہے کہ امریکہ کا قرض اموڈی کے ساتھی ری پبلیکن سابق صدر جارج بُش کے دور میں تیزی سے بڑھنا شرو ع ہوا تھا، اور بُش انتظامیہ نے قرضوں میں کھربوں ڈالر کا اضافہ کیا پھر بھی کانگریس کے ری پبلیکن ارکان خاموش رہے۔

اِن پوسٹروں میں اموڈی عہد کرتے ہیں کہ وہ قرض کی حد نہیں بڑھائیں گے۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ وہ اِس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ اگست تک اگر یہ حد بڑھائی نہ گئی تو کتنی بڑی مالی تباہی آئے گی۔

آخر میں، اخبار نے اِس امید کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ بحث ملک کو درپیش مالی مشکلات سے نکالنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر مرکوز رہے گی اور سُرخ خطرے کے حربوں کو تاریخ کی کتابوں میں ہی رہنے دیا جائے گا، جو اُن کی اصل جگہ ہے۔

امریکہ میں بیروزگاری کی رواں بھاری شرح پر ری پبلیکن رکن کانگریس فریڈ اَپٹن ’واشنگٹن ٹائمز‘ میں ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ یہ بات اب یقینی ہے کہ 2012ءکے امریکی انتخابات کے دوران روزگار کا مسئلہ چھایا رہے گا اور وہی پارٹی یا امیدوار کامیاب اُبھرے گا جو روزگار کے مواقع بڑھانے کے بارے میں کوئی قابلِ عمل تجویز پیش کرے اور یہ بحث نومبر 2012ء میں ختم نہیں ہوگی۔ امریکہ کو روزگار کی ایک دہائی کی ضرورت ہے اور یہ طویل وقتی منصوبہ تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا جِسے آج ہی سے شروع ہوجانا چاہیئے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: