پاکستان کی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض کی ایک اور قسط ملنے سے قبل مختلف سیکٹرز کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جس سے مہنگائی مزید بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی نگراں حکومت نے گھریلو، سیمنٹ، کھاد اور اسٹیلز سمیت مختلف صنعتوں کے لیے گیس کے ٹیرف میں 173 فی صد تک اضافے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اضافہ یکم نومبر سے نافذ العمل ہو گا۔
ماہرین کے مطابق حکومت اس اضافے سے 57 ارب روپے مزید حاصل کرے گی۔
نگراں وفاقی وزیر توانائی کی جانب سے یہ بھی دعویٰ سامنے آیا ہے کہ اس اضافے سے انتہائی غریب افراد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اضافے سے پاکستانیوں کو مہنگائی کی ایک اور نئی لہر کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ملک میں گیس کی قیمتیں بڑھنے سے آئندہ سال مہنگائی کی اوسط شرح 26 فی صد تک رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
یہ شرح اسٹیٹ بینک کی اپنی حالیہ رپورٹ میں جاری توقعات سے بھی بلند ہے۔ مرکزی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال ملک میں مہنگائی کی شرح 20 سے 22 فی صد تک رہنے کا امکان ہے۔
یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب آئندہ ہفتے آئی ایم ایف کی ٹیم تین ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی 700 ملین ڈالر کی قسط کے لیے پاکستان پہنچ رہی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض جاری کرنے ہی کی ایک شرط میں سے ہے جس کے تحت حکومت کو گیس سیکٹر میں درپیش گردشی قرضہ کم کرنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ 2900 ارب روپے تک جا پہنچا ہے جب کہ اس سیکٹر میں خالص نقصانات کا تخمینہ 350 ارب روپے سالانہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'اضافے سے مہنگائی بڑھے گی لیکن یہ ناگزیر تھا'
توانائی سے متعلق امور کے ماہر فرحان محمود کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ اس اضافے سے مہنگائی نہیں بڑھے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ گیس سیکٹر میں گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے یہ ضروری بھی ہو گیا تھا۔
فرحان محمود کے بقول گیس کا گردشی قرضہ پہلے ہی 350 ارب روپے سالانہ کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ گیس کی قیمت بڑھنے کا سب سے زیادہ اثر کیمیکلز کی صنعت پر پڑنے کا امکان ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اس وقت توانائی پیدا کرنے والی مصنوعات جیسے آر ایل این جی، خام تیل اور دیگر مہنگی ہونے کے رحجانات ہیں۔ ایسے میں کمزور قوت خرید رکھنے والے ممالک کے عوام بالخصوص پاکستانیوں پر اس کا گہرا اثر پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ مالی سال میں معاشی حالت مزید بگڑ گئی؛ مرکزی بینک کی سالانہ رپورٹ
ادھر مرکزی بینک نے پاکستان کی معیشت کی کیفیت پر سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو مالی سال 2023کے دوران متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی میکرو اکنامک صورتِ حال روس یوکرین تنازع، اجناس کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں اور غیر منصوبہ جاتی مالیاتی توسیع کے تناظر میں مالی سال 2022 کی دوسری ششماہی سے ہی بگڑ رہی تھی۔
مالی سال 2023 کے دوران صورتِ حال سیلاب، آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے 9 ویں جائزے کی تکمیل میں تاخیر، ملک میں مسلسل غیر یقینی حالات اور سخت ہوتی ہوئی عالمی مالی صورتِ حال کی بنا پر بدتر ہوئی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مون سون کے تباہ کن سیلاب نے معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا، مہنگائی کے دباؤ کو مزید بڑھایا، بیرونی کھاتے پر دباؤ میں اضافہ کیا اور امدادی کوششوں پر اٹھنے والے اخراجات کی بنا پر مالیاتی عدم توازن کو بڑھایا۔