انتونیو کی عمر 14 برس ہے اور پیدائش کے وقت انہیں نابینا قرار دیا گیا تھا۔ انتونیو ’ ڈسٹروفک ایپیڈر مولائسز بلوسا‘ کی ایک غیر معمولی جینیاتی حالت کے ساتھ پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے جسم اور آنکھوں کے اندر چھالے ہوجاتے ہیں۔
انتونیو کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب وہ دنیا کی پہلی ٹاپیکل جین تھیراپی کی جانچ کے لیے ایک کلینکل ٹرائل میں شامل ہوئے اور اس دوران ان کی جلد میں نمایاں بہتری آئی۔
اس سے ڈاکٹر الفانسو سبیٹر کو اسی تھیراپی کو انتونیو کی آنکھوں کے لیےاستعمال کرنے کا خیال آیا اور اس علاج نے ان کی بینائی بحال کر دی۔
ڈاکٹر سبیٹر امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر میامی میں آئی انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں۔انہوں نے نہ صرف انتونیو کی مدد کی بلکہ آنکھوں کےاسی طرح کے علاج کے دروازے بھی کھول دیے جو ممکنہ طور پر عام لوگوں سمیت لاکھوں انسانوں کی آنکھوں کی دیگر بیماریوں کا علاج کر سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیو میں ڈاکٹر الفانسو سبیٹر انتونیو کے ایک اپائنٹمنٹ کے دوران ان کی جینیاتی بیماری کی وضاحت بھی کی جس میں انتونیو کی جلد اور آنکھیں دونوں شامل ہیں۔
انتونیو کی ماں یونی کارواجل بھی ویڈیو میں موجود ہیں۔ یہ خاندان 2012 میں کیوبا سے ایک خصوصی ویزے پر امریکہ آیا تھا جس میں انتونیو کو علاج کی اجازت دی گئی تھی۔
انتونیو کی آنکھوں سے’اسکار ٹشو ‘کو ہٹانے کے لیے سرجری کی گئی لیکن یہ دوبارہ بڑھ گیا۔ انتونیو کی بصارت بدتر ہوتی چلی گئی۔ آخرکار اس قدر بگڑ گئی کہ وہ اپنے ارد گرد چلنے میں محفوظ محسوس نہیں کرتے تھے۔لیکن ڈاکٹر سیبٹر نے ہمت نہیں ہاری۔انہوں نے اس بچے کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ "میں کوئی حل تلاش کروں گا۔ مجھے بس کچھ وقت چاہیے۔ میں اس پر کام کر رہا ہوں۔"
انتونیو جب بھی باہر نکلتے ہیں تو انہیں اپنے بازوؤں، ہاتھوں، ٹانگوں اور پیروں کو ڈھانپنے والا ایک محفوظ لباس پہننا پڑتا ہے۔اس حالت میں مبتلا دوسرے بچوں کی طرح ان کی جلد اتنی نازک ہے کہ ایک معمولی لمس بھی اسے زخمی کر سکتا ہے۔ اسی لیے ان بچوں کو "تتلی جیسےبچے" بھی کہا جاتا ہے۔
انتونیو جس بیماری کا شکار ہیں اس سے دنیا بھر میں لگ بھگ تین ہزار افراد متاثر ہیں۔
ایک موقع پرانتونیو کی ماں کارواجل نے ڈاکٹر سبیٹر کو انتونیو کی جلد کے زخموں کے لیے تجرباتی’ جین تھیراپی جیل‘ کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے ادویات بنانے والی کمپنی کرسٹل بائیوٹیک سے یہ جاننے کےلیے رابطہ کیا کہ آیا اس بچے کی آنکھوں کے لیےکچھ بہتر کیا جاسکتا ہے۔
پینسلوینیا کے شہر پٹسبرگ میں قائم کمپنی کی شریک بانی اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی صدر سوما کرشنن نے کہا کہ یہ خیال بامعنی ہے اور اسے آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔
’’انتونیو جیسی حالت اس جین میں تغیرات کی وجہ سے ہوتی ہے جو کولیجن سیون نامی پروٹین پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے، جو جلد اور قرنیہ دونوں کو ایک ساتھ رکھتا ہے۔‘‘
یہ علاج جس کا نام Vyjuvek ہےاس جین کی کارگرنقول فراہم کرنے کے لیے ایک غیر فعال ہارپس سیمپلیکس وائرس کا استعمال کرکے کیا جاتا ہے۔
آئی ڈراپس میں جلد کے لیے استعمال ہونے والے مائع کا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
اس دوا کو امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) سے منظوری میں لگ بھگ دو سال لگے۔ اس سے قبل چوہوں پر دوا کی آزمائش کی گئی تھی۔
ایف ڈی اے سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دوا کے استعمال کی منظوری کے بعد یونیورسٹی اور اسپتال کے ریویو بورڈز سے بھی اس کے استعمال کی اجازت مل گئی۔
گزشتہ برس اگست میں انتونیو کی دائیں آنکھ کی سرجری ہوئی تھی جس کے بعد ڈاکٹر الفانسو سبیٹر نے آئی ڈراپس سے اس کا علاج شروع کیا تھا۔
کرشنن کہتی ہیں کہ وہ محتاط تھے، اکثر یہ دیکھتے رہے کہ یہ محفوظ ہے۔
ڈاکٹر الفانسو سبیٹر نے اس حوالے سے بتایا کہ انتونیو کی آنکھ سرجری سے ٹھیک ہوئی، زخم واپس نہیں آئے اور ہر ماہ اس میں نمایاں بہتری آئی۔
ڈاکٹروں نے حال ہی میں انتونیو کی دائیں آنکھ میں بصارت کو تقریباً 20/25 پر ناپا تھا۔ خیال رہے کہ بالکل درست بینائی کو 20/20 قرار دیا جاتا ہے۔
رواں برس ڈاکٹر الفانسو سبیٹر نے انتونیو کی بائیں آنکھ کا علاج شروع کیا ہے جس میں اور بھی زیادہ ’اسکار ٹشو ‘تھے۔
انتونیو کی بائیں آنکھ بھی مسلسل بہتر ہو رہی ہے جس کی پیمائش 20/50 کے قریب ہے، جس کے لیے ڈاکٹر الفانسو سبیٹر کا کہنا ہےکہ یہ بہت اچھا وژن ہے۔
انتونیو ہفتہ وار چیک اپ کے لیے آئی انسٹی ٹیوٹ آتے ہیں جب کہ ہر ماہ میں ایک بار آئی ڈراپس ڈلواتے ہیں۔
انتونیو اب بھی جلد کی تھیراپی کے لیے’ جیل‘ استعمال کر رہے ہیں جسے ایف ڈی اے نے رواں برس مئی میں منظور کیا تھا۔ اسے آنکھوں پر آف لیبل بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ڈی این اے میں ترمیم نہیں کرتا، لہٰذا یہ بہت سی جین تھیراپیز کی طرح ایک بار کا علاج نہیں ہے۔
آئی انسٹی ٹیوٹ میں ’کارنیل انوویشن لیب‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر الفانسو سبیٹر کہتے ہیں کہ جین تھیراپی آئی ڈراپس ممکنہ طور پر وائرس کے ذریعے فراہم کردہ جین کو تبدیل کرکے دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ Fuchs’ dystrophy‘ کے علاج کے لیے ایک مختلف جین کا استعمال کیا جا سکتا ہے جو امریکہ میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ افراد کو متاثر کرتی ہے اور ملک میں ہونے والی قرنیہ کی پیوند کاری کا نصف حصہ ہے۔
ڈاکٹر ایمی پاینے یونیورسٹی آف پینسلوینیا میں ڈرماٹولوجی کی پروفیسر ہیں۔ وہ اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ نقطۂ نظر واقعی بیماری کی بنیادی وجہ کو حل کرتا ہے۔
اپنی بصارت کی بحالی کے ساتھ انتونیو اب اپنی عمر کے دیگر لڑکے لڑکیوں کی طرح وہ سب کر رہے ہیں جو وہ کافی عرصے سے کرنا چاہتے تھے۔ یعنی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ویڈیو گیم کھیلتے ہیں اور ان کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتے ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔