امریکہ میں گزشتہ سال مئی میں ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت میں نامزد پولیس افسر ڈیرک شاون کے خلاف اقدام قتل کے کیس میں آج پیر کے روز فریقین کے وکلا نے اختتامی دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ اب اس اہم کیس کا فیصلہ جیوری پر منحصر ہے، جو انتہائی سیکیورٹی کے انتظامات کے درمیان دونوں جانب کی شہادتوں اور وکلا کے دلائل کی روشنی میں کیس کا فیصلہ سنائے گی۔
پیر کو جیوری کے اراکین کے سامنے اپنے اختتامی دلائل دیتے ہوئے جارج فلائیڈ کے وکیل اسٹیو شلائکر نے کہا کہ آفیسر ڈیرک شاؤن کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ جارج فلائیڈ کی گردن پر ٹانگ رکھ کر انہیں زندگی سے محروم کر رہے ہیں۔
انہوں نے ہلاکت کے واقعے کی ویڈیوز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جیوری سے کہا کہ ’’آپ اپنی ذہانت استعمال کریں، اپنی آنکھوں پر یقین رکھیں، جو آپ نے دیکھا، وہی حقیقت ہے۔‘‘۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سابق پولیس افسر ڈیرک شاؤن نے جارج فلائیڈ کی گردن پر 9 منٹ 29 سیکنڈ تک اپنا گھٹنہ رکھا۔
شاون کے وکیل ایرک نیلسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ پولیس افسر ڈیرک شاؤن نے جو اقدامات اٹھائے وہ موقع کی مناسبت سے تھے۔ ان کے مطابق کوئی بھی پولیس افسر اپنے آپ کو مسلسل بدلتی ہوئی صورت حال سے ایسا ہی ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور پاتا، جس میں ایک بڑے جثے کا شخص تین پولیس افسران سے جھگڑ رہا ہے۔
دفاعی وکیل کے مطابق ڈیرک شاؤن نے جو اقدامات اٹھائے وہ موقع کی مناسبت سے ٹھیک تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 46 سالہ جارج فلائیڈ کی موت دل کے عارضے اور غیر قانونی منشیات کے استعمال کی وجہ سے ہوئی۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق، پولیس افسران کے پاس بعض حالات میں یہ گنجائش ہوتی ہے کہ کچھ حد تک طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں اور ان کے اقدامات کو خاص حالات میں کسی بھی معقول پولیس افسر کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے برابر ہی سمجھا جاتا ہے۔ ڈیرک شاؤن کے دفاعی وکیل بھی اسی جانب جیوری کی توجہ دلا رہے تھے۔
ڈیرک شاون کے وکیل نے فلائیڈ کی گرفتاری کی کوشش میں ہونے والے جھگڑے کے دوران شاؤن کے باڈی کیمرے اور پولیس بیج کے زمین پر گرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’کوئی بھی معقول پولیس افسر موقعے کی سنگینی کو سمجھتا ہے۔‘‘
اس سے پہلے پراسیکیوشن کے دلائل میں فلائیڈ کے وکیل سٹیو شلائکر نے جائے وقوعہ کے ارد گرد کھڑے ہوئے لوگوں کی جانب سے بنائی گئی ویڈیوز دکھائیں اور دفاعی وکیل کی جانب سے دیے گئے دلائل کو نامناسب قرار دیا۔
فلائیڈ کے وکیل نے زیادہ مقدار میں منشیات لینے، ارد گرد کھڑے ہجوم کے پولیس افسران کو پریشان کرنے، فلائیڈ میں خاص قسم کی منشیات لینے کی وجہ سے غیر معمولی طاقت کے آنے اور گاڑی کے خارج ہونے والے دھوئیں سے کاربن مونو آکسائڈ زیادہ مقدار میں جذب ہونے جیسے تمام نظریات کو رد کر دیا، جو ڈیرک شاون کے وکیل کی جانب سے ملزم کے دفاع میں پیش کئے گئے تھے۔
انہوں نے دفاعی وکیل کی جانب سے دی گئی دلیل پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی عجیب اتفاق معلوم ہوتا ہے کہ فلائیڈ کی موت عارضہ قلب کے باعث ہوئی تھی جب کہ اس وقت ڈیرک شاؤن نے ان کی گردن پر ٹانک رکھی ہوئی تھی۔
انہوں نے جیوری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کیا یہ محض اتفاق ہے یا بالکل غیر مناسب بات ہے؟
دفاعی وکیل نے کہا کہ پراسیکیوشن کی طبی ماہرین پر مبنی گواہیوں میں یہ تو دعوی کیا گیا کہ فلائیڈ کی موت دم گھٹنے سے ہوئی مگر جس شخص نے فلائیڈ کا پوسٹ مارٹم کیا تھا وہ اس سے مختلف نتیجے پر پہنچا تھا۔
یاد رہے کہ فلائیڈ کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ہینی پن کاؤنٹی کے طبی معائنہ کار ڈاکٹر اینڈریو بیکر نے اپنی رپورٹ میں فلائیڈ کی موت کو قتل قرار دیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ فلائیڈ کی موت کی وجہ پولیس کا ان کی گردن پر ٹانگ رکھنا تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا تھا کہ ہلاکت کی دیگر وجوہات میں ان کو طویل عرصے سے لاحق امراض بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ دفاعی وکیل نے فلائیڈ کی کار سے ملنے والی منشیات کی تصاویر بھی جیوری کو دکھائی تھیں۔
اس سے پہلے پراسیکیوٹر نے جیوری کو بتایا کہ کیسے شاؤن نے فلائیڈ کی پکار کو سننے سے انکار کرتے ہوئے ان کی گردن پر ٹانگ سے دباو بڑھانا جاری رکھا، یہاں تک کہ فلائیڈ نے سانس لینا بند کر دی اور ان کی دھڑکن بھی بند ہو چکی تھی۔ ان کے بقول، یہ بات 9 منٹ اور 20 سیکنڈ تک فلائیڈ کی گردن پر ٹانگ رکھنے والے شاؤن کو معلوم ہونی چاہئے تھی۔ بقول ان کے شاؤن تک فلائیڈ کی پکار پہنچتی رہی مگر انہوں نے سننے سے انکار کر دیا۔
وکیل استغاثہ نے 45 منٹ تک اپنے دلائیل جاری رکھے اور اپنے اختتامی کلمات میں جیوری کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پولیس کی کارروائی نہیں، قتل تھا۔‘‘
شاون کے دفاعی وکیل نیلسن نے موقعے پر موجود لوگوں کی ویڈیوز جیوری کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ایک موقع پر دیکھا جا سکتا ہے کہ شاؤن نے ہجوم کی جانب سے انے اوپر بھی طاقت کے استعمال کی دھمکی سنی اور ایک آف ڈیوٹی طبی کارکن ان کے پیچھے سے ان تک پہنچا، تو وہ گھبرا گئے۔
نیلسن نے اس لمحے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ اہم لمحہ تھا کہ شاؤن کا رویہ یکسر بدل گیا اور انہیں موقع کی نزاکت کا احساس ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں، میں اس موقع کی اہمیت پر جتنا بھی زور دوں وہ کم ہو گا۔‘‘
یاد رہے کہ 45 برس کے ڈیرک شاؤن پر سیکنڈ ڈگری قتل، تھرڈ ڈگری قتل اور سیکنڈ ڈگری اقدام قتل کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ ان تمام الزامات پر جیوری کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا شاؤن کے اقدامات کی وجہ سے فلائیڈ کی موت واقع ہوئی ہے اور یہ کہ کیا اس نے بے جا طاقت کا استعمال کیا؟۔
امریکہ میں سیکنڈ ڈگری یعنی ارادتاً قتل کی سزا 40 برس قید ہے، تھرڈ ڈگری ارادتاً قتل کی سزا 25 برس اور سیکنڈ ڈگری اقدام قتل کی سزا 10 برس ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 25 مئی کو جارج فلائیڈ کی ہلاکت اس وقت ہوئی تھی، جب اسے پولیس اہل کار ڈیرک شاوین گرفتار کر نے کے بعد قابو کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز کے مطابق پولیس آفیسر کا گھٹنہ نو منٹ تک جارج فلائیڈ کی گردن پر رہا۔
اس واقعے کی ویڈیو اردگرد کھڑے شہریوں نے بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی جس کے بعد امریکہ کے کئی شہروں اور دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
ڈیرک شاوین اور ان کے دیگر ساتھیوں کو پولیس کے محکمے نے اس واقعے کے بعد ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔ اب ان پر جارج فلائیڈ کے قتل کا الزام ہے جب کہ ان کے ساتھیوں پر معاونت کے الزامات ہیں۔
پیر کو جارج فلائیڈ کے کیس کی سماعت کے موقعے پر عدالت کے باہر سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔ اس کی وجہ نہ صرف ڈیرک شاوین کے خلاف چلنے والے کیس کی حساس نوعیت ہے،بلکہ گزشتہ اتوار کو منی آپلس شہر کے نواح میں ایک خاتون پولیس افسر کی گولی سے ہلاک ہونے والے بیس سالہ سیاہ فام شہری ڈانٹے رائیٹ کے حق میں کئی روز سے جاری مظاہرے بھی ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منی آپلس کے نواح میں واقع واشنگٹن کاؤنٹی کے اٹارنی پیٹ آرپٹ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ سیاہ فام نوجوان ڈانٹے رائٹ پر گولی چلانے والی سفید فام خاتون پولیس آفیسر کم پورٹر پر سیکنڈ ڈگری مین سلاٹر کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔
ان دفعات کے تحت خاتون پولیس آفیسر کو زیادہ سے زیادہ 10 سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ ڈانٹے رائٹ کے لواحقین نے ایک پریس کانفرنس میں خاتون پولیس آفیسر کے خلاف زیادہ سخت دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
ریاست منی سوٹا کے قانون کے مطابق، جب کوئی کسی دوسرے شخص کو غیر ضروری خطرے میں ڈالے یا کوئی ایسا اقدام کرے، جس سے دوسرے کی موت واقع ہو سکے یا اسے زبردست جسمانی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو ایسے شخص کو دوسرے درجے کے اقدام قتل یا سیکنڈ ڈگری مین سلاٹر کا مرتکب ٹہرایا جاتا ہے۔جس کی زیادہ سے زیادہ سزا دس سال ہو سکتی ہے۔