جرمنی کو ’ کنڈرگارٹن جہادیوں‘ کے خطرے کا سامنا

جرمنی میں کرسمس مارکیٹ پر ٹرک حملے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں شمعیں روشن ہیں۔ 19 دسمبر2018

البانیا کے ایک امیگرنیٹ کے 18 سالہ بیٹے نے پچھلے سال رائن لینڈ قصبے کی کرسمس مارکیٹ میں دہشت گرد حملہ کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر ایک 12 سالہ عراقی نژاد بھاری جیکٹ پہن کر وہاں جانے کی ہدایت کی تھی۔

اس نے انٹرنیٹ پر 12 سالہ لڑ کے سے یہ بھی کہا کہ مارکیٹ میں پہنچنے کے بعد کسی اسٹال کے پیچھے جاؤ، اور بارودی مواد کو آگ لگا کر بھاگ جاؤ۔

خوشی قسمتی سے لوہے کی کیلوں سے بھرا ہوا دیسی ساختہ بم پھٹ نہ سکا اور بارہ سالہ جہادی وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد اس نے دسمبر میں ہی ایک اور قصبے لڈویگشافن کے سٹی ہال کے باہر دھماکہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس دوران پولیس نے اسے پکڑ لیا۔

پچھلے مہینے ایک عدالتی کارروائی میں تفصيل سے بتایا گیا کہ کس طرح ہمسایہ ملک آسٹریا کے ایک گھر سے ایک 18 سالہ لڑ کے نے دہشت گرد حملہ کرنے میں 12 سالہ جہادی کی راہنمائی کی تھی۔

ان واقعات کے بعد جرمنی کے انٹیلی جینس ادارے نے یہ کہتے ہوئے 14 سال سے کم عمر بچوں کی نگرانی پر بھی زور دیا ہے کہ جرمنی کو ایک نئے قسم کے خطرے کا سامنا ہے جسے میڈیا’ کنڈرگارٹن جہادی‘کے نام سے پکار رہا ہے۔

آئین کے تحفظ سے متعلق ادارے کے سربراہ ہانس گورگ ماسن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ جرمنی کو وطن لوٹنے والی ان عورتوں اور بچوں سے شدید خطرہ ہے جن کی داعش برین واشنگ ہو چکا ہے ۔ انہوں نے جہادی والدین کو ایسے ٹائم بم سے تشبہہ دی جو کسی بھی مقررہ وقت پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق جرمنی کے ایک ہزار افراد داعش میں شامل ہوئے تھے۔

ماسن نے بتایا کہ جرمنی لوٹنے والے ایسے بچوں کی تعداد 290 ہے جو اپنے والدین کے ساتھ شام یا عراق گئے تھے یا وہ وہیں پر پیدا ہوئے تھے۔

تاہم شہری آزادیوں کے سرگرم کارکنوں نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔