داعش نے پیر کے روز برلن میں ہونے والے مہلک ٹرک حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، ایسے میں جب جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل کے حامی اور مخالفین واقعے کا الزام اُن کی تارکین ِوطن سے متعلق متنازع پالیسی کو قرار دے رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ نے خبر رساں ادارے کے حوالے سے دہشت گرد گروپ کے دعوے کی یہ خبر دی ہے کہ ’’داعش کے سپاہی نے‘‘ یہ حملہ کیا، جس میں کرسمس کے پُرہجوم مارکیٹ میں 12 افراد ہلاک، جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔
تاہم، حکام نے ابھی مشتبہ شخص کو گرفتار نہیں کیا۔ ایک شخص جسے اس سے قبل حراست میں لیا گیا تھا اُنھیں پناہ کا خواہش مند پاکستانی قرار دیا گیا، جس سے قبل پولیس نے بتایا تھا کہ یہ وہ شخص نہیں جس کی اُسے تلاش ہے۔
مرخیل نے منگل کے روز بتایا کہ ’’مجھے پتا ہے کہ ہم سب کے لیے یہ خاص طور پر مشکل بات ہوگی، اگر اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ جس شخص نے یہ کام کیا اُسے جرمنی میں تحفظ اور پناہ کی تلاش تھی‘‘۔
جرمن سربراہ نے کہا کہ ’’یہ بات خاص طور پر متعدد جرمنوں کے لیے ناقابلِ بیان ہوجائے گی، جو آئے دِن مہاجرین کے لیے سرگرمی سے کام انجام دے رہے ہیں، ساتھ ہی اُن لوگوں کے لیے جنھیں ہمارا تحفظ درکار ہے، اور جو ہمارے ملک میں ضم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ چانسلر نے اس امر کو اجاگر کیا جس نے تارکینِ وطن کے بحران کے آغاز ہی سے اُن کے ملک کو انتہائی مشکل سے دوچار کیا ہوا ہے۔
حال ہی میں مرخیل نے اعلان کیا تھا وہ آئندہ سال قومی انتخابات میں چوتھی بار چانسلر کے عہدے کی امیدوار ہوں گی۔ تاہم، منگل کے روز اِس امکان پر سوال اٹھائے گئے۔
فوری طور پر، مرخیل کے مخالفین اور اسلام مخالف اشخاص نے اس کا الزام جرمن رہنما پر لگایا۔ کچھ حضرات تارکین وطن سے متعلق یورپی یونین میں داخلے کی اُن کی ’کھلے دروازے‘ کی پالیسی کو ایسے واقعات کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ سال جرمنی میںٕ پناہ کے حصول کےلیے، 890000 افراد نے درخواست دی، جن میں زیادہ تر تعداد مسلمانوں کی ہے۔