افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے ملک سے فرار ہونے کے ایک برس بعد پہلے انٹرویو میں خود کو ملک چھوڑ کر جانے والوں میں سب سے آخری شخص قرار دیا ہے جب کہ اپنے بیرونِ ملک جانے کا ایک بار پھر دفاع کیا ہے۔
ایک سال قبل افغانستان پر طالبان کے قابض ہونے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد سابق صدر نے پہلی بار عوامی سطح پر گفتگو کی ہے۔
انہوں افغانستان کے پشتو اور دری زبان کے میڈیا ادارے ’اے بی این‘ کو انٹرویو دیا ہے۔
اس حوالے سے افغان خبر رساں ادارے ’خاما‘ کے مطابق اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ملک کے آئین کے مطابق وہ افغانستان کے صدر تھے۔ اس لیے جب تک افغان عوام قانونی طور پر کسی اور اقتدار منتقل نہیں کر دیتے اس وقت تک میں ہی صدر ہوں۔
انٹرویو میں جب ان سے طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار کی حکمتِ عملی سے متعلق سوال کیا گیا تو سابق صدر نے بتایا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں تھا کیوں کہ طالبان پہلے ہی اس حوالے سے مجوزہ منصوبے کو مسترد کر چکے تھے۔ اس منصوبے کے تحت افغانستان کی عوامی جمہوریہ اور طالبان میں شراکتِ اقتدار کا طریقہ کار طے ہونا تھا۔
ان کا انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ کابل میں طالبان کے داخل ہونے سے قبل وزیرِ دفاع، حکومت کے اعلیٰ ترین حکام سمیت ان کی کابینہ کے ارکان ملک سے فرار ہو چکے تھے۔ وہ ان سب میں سب سے آخری شخص تھے جنہوں نے ملک چھوڑا تھا۔
ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ قوم کو خدشات میں نہیں چھوڑنا چاہتے تھے اور وہ اپنی حفاظت کو بھی مدِ نظر رکھے ہوئے تھے تاکہ تاریخ کا دردناک انجام ایک بار پھر نہ دھرائی جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ طالبان 1996 سے 2001 تک افغانستان پر پہلے بھی حکومت کر چکے ہیں۔ 1996 میں جن طالبان کابل میں داخل ہوئے تھے اس وقت انہوں نے افغانستان کے صدر محمد نجیب کو گرفتار کر لیا تھا اور انہیں پھانسی دے دی تھی۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ عطا محمد نور اور عبد الرشید دوستم کی ملیشیا کے مقابلہ نہ کرنے کی کیا وجہ تھی، تو انہوں نے بتایا کہ ان کس نے کہا تھا کہ مقابلہ نہیں کرنا۔ انہوں نے 20 سال تک مراعات لیں لیکن جب مقابلہ کرنے کا وقت آیا تو انہوں نے کتنا مقابلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے جنگ کرنے کا طریقہ الگ ہے جب کہ افغان الگ طرح سے لڑائی لڑتے ہیں۔
افغانستان میں اپنی حکومت کے خاتمے کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس دن کابل میں طالبان داخل ہوئے امریکہ کے سفارت خانے نے اسی صبح دستاویزات جلانا شروع کر دی تھیں۔ بعد ازاں وہاں سے عملہ کابل کے ہوائی اڈے منتقل ہوا تھا۔
افغانستان سے انخلا مکمل ہونے پر انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے سفارت خانے نے ان ہزاروں افغان فوجیوں کو بھی افغانستان سے نکال لیا تھا جن کی سب سے زیادہ اس وقت ملک کو ضرورت تھی، جن سیکیورٹی اہلکاروں کا ملک سے انخلا ممکن بنایا گیا تھا ان میں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کی اسپیشل کور کے ارکان بھی شامل تھے۔
امریکہ کےحوالے سے اشرف غنی نے کہا کہ اگر وہ جمہوری حکومت کی پشت پناہی کر رہے تھے تو انہوں افغانستان کی فورسز کا انخلا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ اگر وہ خود کو اقتدار سے الگ نہ کرتے تو خون خرابے کے خطرے کے ساتھ ساتھ ان کی جان کو بھی خطرہ تھا اور افغانستان ایک اور لیڈر کی اس طرح کی بھیانک موت کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے انہوں نے راہ فراراختیارکرنےکو ترجیح دی۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان کو اقتدار سنبھالے ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔ تاہم ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ ملک میں اس وقت بیروزگاری عروج پر ہے جب کہ معاشی عدم استحکام میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر افغانستان کے حالات اسی سمت بڑھتے رہے تو ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔