افغانستان سے رواں برس ستمبر تک امریکی فورسز کا انخلا مکمل کرنے کے منصوبے کے تحت امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگون نے بگرام میں واقع ایئر بیس بھی خالی کرنا شروع کر دیا ہے۔
رواں ماہ کے اختتام تک امریکی فورسز افغانستان میں امریکہ کا سب سے بڑا ایئر بیس خالی کر دیں گی۔
اس ایئربیس کی طرف جانے والی سڑک کے کنارے استعمال شدہ الیکٹرانک سامان کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، جن میں ٹیلی فون سے لے کر تھرماس اور کمپیوٹر کے کی بورڈز سے لے کر امریکی فوجیوں کے زیرِ استعمال رہنے والے آلات اور ساز و سامان شامل ہیں۔
اس میں سے جنگی ساز و سامان یا تو واپس امریکہ بھجوایا جا چکا ہے یا افغان سیکیورٹی فورسز کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن، دیگر استعمال کا ساز و سامان یہیں چھوڑ دیا جائے گا۔
کباڑ کا کاروبار کرنے والوں کے لیے یہ منافع کمانے کا سنہری موقع ہوگا لیکن وہیں کئی لوگ اس پر برہم بھی ہیں۔
کباڑ کے کاروبار سے وابستہ 40 سالہ میر سلام نے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بگرام بیس میں کئی نئی چیزیں بھی تھیں جو افغانستان کے عوام کے کام آ سکتی تھیں۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بگرام بیس افغانستان میں امریکی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے۔
یہاں ایک چھوٹا سا شہر بس گیا تھا جہاں ہزاروں اہل کار اور کنٹریکٹر کی آمد و رفت لگی رہتی تھی۔ یہاں سوئمنگ پول، سنیما اور حمام بن گئے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں 'برگر کنگ' اور 'پیزا ہٹ' جیسی فاسٹ فوڈ چینز کی شاخیں بھی کھل گئی تھیں۔
بگرام میں ایک قید خانہ بھی بنایا گیا تھا جس میں برسوں تک ہزاروں طالبان اور جہادی قید رہے۔
نصف صدی کا قصہ
سرد جنگ کے دوران امریکہ نے 1950 کی دہائی میں شمالی افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف دفاعی مورچے کے طور پر بگرام ایئر بیس تعمیر کیا تھا۔
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 1979 میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہی بگرام بیس اس کا نقطۂ آغاز بنا۔ افغانستان پر ایک دہائی پر محیط قبضے کے دوران سوویت فوج نے اس ایئر بیس کو غیرمعمولی وسعت دی۔
روس نے جب اپنی فوج نکالی تو اس کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں بگرام ایئربیس کو پھر مرکزیت حاصل ہوئی۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ اس کے تین کلومیٹر طویل رن وے کا ایک سِرا طالبان کے پاس جب کہ دوسرا شمالی اتحاد کے پاس تھا۔
’کچھ ضائع نہیں ہوتا‘
میر سلام نے بگرام روڈ پر ایک پلاٹ ایک ہزار افغانی کرنسی (بارہ ڈالر) ماہانہ کرائے پر لے رکھا ہے جس کے گرد باڑ بھی لگی ہوئی ہے۔ سلام یہاں بیس سے لایا گیا کباڑ جمع کرتے ہیں اور اس میں سے دھاتیں تلاش کر کے آگے ڈیلرز کو فروخت کر دیتے ہیں۔
ایئر بیس کی طرف جانے والی سڑک پر ایسے درجنوں احاطے ہیں۔ ان میں سے کچھ اجاڑ نظر آتے ہیں، لیکن بعض باقاعدہ گودام بھی بن گئے ہیں جن کے باہر مسلح محافظ بھی موجود ہیں۔
بڑے کاروباری کھلاڑیوں نے ٹھیکے دار رکھے ہوئے ہیں جو کباڑ سے چھانٹ کر ایسے آلات نکالتے ہیں جنھیں مرمت کے بعد دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہو۔ ان کے لیے جو چیزیں بے کار ہوتی ہیں وہ میر سلام جیسے چھوٹے ڈیلرز کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
تاریں چھیل کر تانبا نکالا جاتا ہے۔ سرکٹ بورڈ توڑ کر ان سے قیمتی دھاتوں کے ذرات جمع کیے جاتے ہیں اور کباڑ سے ملنے والے المونیم کو پگھلا کر محفوظ کردیا جاتا ہے۔
کباڑ کے ایک اور چھوٹے کاروباری حاجی نور رحمان کا کہنا ہے کہ کوئی شے ضائع نہیں ہوتی۔ جو چیز دوبارہ قابلِ استعمال ہو لوگ اسے خرید لیتے ہیں۔
ٹیڈی بیئر، ورزش کا سامان، برانڈڈ جوتے اور بہت کچھ
کباڑ کا سامان جمع کرنے والے بڑے گودام کسی ڈپارٹمنٹل اسٹور کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں ٹوٹی ہوئی کرسیاں، ٹوٹے پھوٹے ٹی وی، زنگ آلود ورزش کا سامان، ایک برقی پیانو، مصنوعی کرسمس ٹریز اور سجاوٹ کا دیگر سامان بکھرا پڑا ہے۔ کہیں ابتدائی طبی امداد کے باکس ہیں جن سے پٹیاں اور دیگر سامان نکل کر باہر بکھرا ہوا ہے۔
اس سامان میں کابل سے اپنے دوست کے ساتھ آئے ہوئے عبدالبصیر نے آٹھ ہزار افغانی میں ایک بڑا آہنی دروازہ خریدا ہے۔
کہیں ایک نوجوان برانڈڈ جوتوں کا جوڑا تلاش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ان جوتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ابھی مزید کچھ میل چلنے کے قابل ہیں۔
اسی ڈھیر میں سے ایک نوجوان کو ٹیڈی بیئر اور رگبی کی چھوٹی گیند بھی مل گئی ہے۔
امریکی صرف بگرام ائیر بیس پر سامان ہی چھوڑ کر نہیں جا رہے ہیں بلکہ اس کے آس پاس کئی ایسے لوگ بھی یہیں رہ جائیں گے جن کے روزگار کا انحصار اس ایئر بیس پر تھا۔
بگرام ایئر بیس اب کس کے کنٹرول میں ہوگا؟
بگرام کے گورنر شیرین رؤفی کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا سے ملک اور بگرام کی معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ وہ مستقبل سے متعلق پُرامید نظر نہیں آتے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکیوں کی یہاں موجودگی سے ہزاروں افغان شہریوں کو روزگار ملا تھا جن میں مکینک سے لے کر نان بائی تک شامل تھے۔
رؤفی کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز کی روانگی کے بعد ایئربیس کے انتظامات اور سیکیورٹی اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے پولیس، فوج اور این ڈی ایس (افغان انٹیلی جنس) کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس کے لیے فوجیوں کی بھرتیاں بھی شروع کی جا رہی ہیں اور جو لوگ معیار پر پورا اتریں گے انہیں بھرتی کیا جائے گا۔
اس وقت تک بگرام ایئر بیس سے کاٹھ کباڑ کی صفائی کا کام جاری ہے۔
بگرام کے ایک رہائشی محمد امین نے کباڑ کے ڈھیر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا "یہ لوگ ہمارے ملک کی تعمیرِ نو کے لیے آئے تھے لیکن اب اسے تباہ کر رہے ہیں۔ یہ ہمیں یہ سب کچھ دے سکتے تھے۔"
اگر طالبان کا قبضہ ہوگیا تو
گزشتہ چند ماہ سے بگرام ایئر بیس راکٹ حملوں کی زد میں ہے۔ ان حملوں کی ذمے داری شدت پسند گروہ داعش نے تسلیم کی ہے۔
داعش نے یہ ذمہ داری ایسے موقع پر قبول کی ہے جب طالبان کی جانب سے مختلف اضلاع پر قبضے کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک وہ متعدد اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اگر طالبان بگرام ایئر بیس پر قبضہ کرلیتے ہیں تو یہ کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کی جانب ان کا ایک غیر معمولی قدم ہو گا۔