افغانستان: لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان میں اختلافات

کابل میں لڑکیوں کے اسکول کا ایک کلاس روم (فائل فوٹو)

طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر مسلسل پابندی عائد ہے۔ گزشتہ ماہ لڑکیوں کے سکول کھولنے کے فوراً بعد ہی انہیں دوبارہ بند کر دیا گیا۔ اور ماہرین کے خیال میں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اسلام پسند گروپ پر اب بھی انتہائی قدامت پسند افراد کا کنٹرول ہے اور اقتدار کی اس کشمکش میں افغانستان کے پریشان حال عوام کے لیے انتہائی ضروری امداد خطرے میں پڑگئی ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی بین الاقوامی سطح پر برہمی کا باعث بنی ہے اور حتیٰ کہ خود طالبان تحریک میں بھی اس فیصلے پر الجھن کا اظہار کیا گیا۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ایک سینئیر رکن نے کہا،"یہ حکم انتہائی پریشان کن تھا۔ سپریم لیڈر نے بذاتِ خود مداخلت کی۔"

اے ایف پی کا کہنا ہے کہ موضوع کی حساسیت کے باعث اس خبر رساں ادارے سے بات کرنے والے طالبان کے تمام عہدیداروں نے اپنی شناخت ظاہر کرنے کی ممانعت کردی۔

لڑکیوں کی تعلیم پر اس پابندی کے بارے میں، واشنگٹن میں ڈائرکٹر انالیٹیکل ڈیپاٹمنٹ، نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فارسٹریٹیجی اینڈ پالیسی"ڈاکٹر کامران بخاری نے بھی وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے طالبان کے درمیان اختلافِ رائے کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا،" طالبان کے اندر اختلافات اتنے زیادہ ہیں۔ ملا برادر نے حکم دیا کہ لڑکیوں کو سکول جانے دیا جائے جبکہ دوسرے گروپ نے اس کی مخالفت کی اور پھر ثالثی کے لیے دونوں گروپ قندھار میں ملا حبت اللہ کے پاس پہنچ گئے۔"

SEE ALSO: لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندی کا کوئی مذہبی جواز نہیں: مسلم اسکالرز

ان کے مطابق ملا حبت اللہ کی حیثیت کمانڈر کی نہیں بلکہ ایک سپریم لیڈر کی ہے اور ان کا انحصار حقانیوں پر زیادہ ہے۔

اے ایف پی کے مطابق قندھار شہر طالبان کے لیے اقتدار کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور طالبان کی جانب سے گزشتہ ماہ لڑکیوں کے سکول کھولنے کے فوراً بعد ہی انہیں دوبارہ بند کرنے کا فیصلہ قندھار میں ہونے والی ایک میٹنگ کے بعد کیا گیا جس کی حمایت اس موضوع پر انتہائی قدامت پسند مؤقف کے حامل ملا حبت اللہ اور بعض دیگر طالبان لیڈروں نے کی۔

اب تک طالبان عہدیدارلڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا جواز فراہم نہیں کر سکے سوائے یہ کہنے کے کہ ان کی تعلیم "اسلامی اصولوں" کے مطابق ہو نی چاہیئے۔

قندھار کا اثرورسوخ بحال کرنے کی کوشش

ایشلی جیکسن لندن میں مقیم ایک تجزیہ کار ہیں اور افغانستان کے بارے میں ان کی تحقیق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ کہتی ہیں طالبان میں مذہبی لیڈر سمجھتے ہیں کہ انہیں حکومتی فیصلوں میں شامل نہیں کیا گیا اور لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت ان کی جانب سے اپنا اثرو رسوخ بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے جیکسن نے کہا،" اس سب سے ظاہر ہے کہ قندھار اب بھی طالبان کی سیاست کا مرکز ہے۔"

طالبان کے ایک سینئیر رکن کا کہنا ہے کہ سخت مؤقف کے حامل طالبان لیڈر ان ہزاروں طالبان جنگجوؤں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جوانتہائی قدامت پسند دیہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔اور ان کے لیے کسی عورت کا گھر سے باہر قدم رکھنا بھی غیر اخلاقی ہے چہ جائیکہ اسے تعلیم دی جائے۔

غیر ملکی امداد کو دھچکہ

اگرچہ بعض طالبان کا کہنا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم پر باہم بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم پر دوبارہ پابندی عائد کرنے سے بین الاقوامی طور پر خود کو تسلیم کروانے کی طالبان کی کوششوں کو سخت دھچکہ پہنچا ہے۔

ایشلی جیکسن کہتی ہیں حبت اللہ اخونزادہ اور ان کے قریبی ساتھیوں کو اس بات کا بالکل ادراک نہیں ہے کہ ان کے اس فیصلے کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں جبکہ بین الاقوامی برادری نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے جو شرائط رکھی ہیں ان میں سے ایک لڑکیوں کی تعلیم بحال کرنا بھی ہے۔

اس کا احساس طالبان کے بعض لیڈروں کو بھی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں کو فیصلہ تبدیل کرنے پر مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

(اس مضمون میں مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)