افغانستان میں دو صحافیوں کے لاپتا ہونے پرعالمی نگراں ادارے کی مذمت

طالبان کے پہلے قائم مقام وزیر اعظم، عبد الغنی برادر کی اخباری کانفرنس میں شرکت کے منتظر افغان صحافی۔ 24 مئی، 2022ء

ذرائع ابلاغ کے بین الاقوامی مبصرین نےمنگل کو افغانستان کے طالبان حکمرانوں سے ملک کے دو صحافیوں کے مبینہ طور پر لاپتا ہونے کے واقعے کی فوری چھان بین کرنے اور ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

لاپتا صحافیوں کے رشتہ داروں اور ساتھی کارکنوں کے مطابق، علی اکبر خیرخواہ اور جمال الدین دلدار دارالحکومت کابل سے 24 مئی سے لاپتا ہیں۔

خیرخواہ فوٹو جرنلسٹ اور رپورٹر ہیں جو مقامی روزنامہ 'صبح کابل' کے لیے کام کرتے ہیں۔ رپورٹنگ اور یونیورسٹی کی کلاسوں میں حاضری دینے کے لیے، وہ 24 مئی کی صبح سویرے دارالحکومت کے کوٹے سنگی علاقے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ تب سے ان کی والدہ اور بھائی نے مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ انھیں ان سے متعلق کوئی معلومات نہیں ملیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا طالبان حکام سے بھی رابطہ ہوا ہے، جن پر صحافیوں کے اغوا کا شبہ ہے ، لیکن انھوں نے اس معاملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ۔

دلدار افغانستان کے جنوب مشرقی صوبہ پکتیا میں 'وائس آف گردیز' ریڈیو کے سربراہ ہیں۔ ان کے اہل خانہ اور سینئر ساتھیوں نے ان کی گرفتاری کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیا ہے۔ تاہم، انھیں ان کی گرفتاری کی وجہ کا علم نہیں ہے۔

SEE ALSO: افغان طالبان نے خواتین ٹیلی ویژن اینکرزکو چہرہ ڈھانپنے کا حکم دے دیا

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے طالبان پر زور دیا ہے کہ دونوں صحافیوں کے لاپتا ہونے کی فوری تفتیش کی جائے۔ انھوں نے کہا ہے کہ افغانستان میں صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے کارکنوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدام لینے کی ضرورت ہے۔

صحافیوں کے نگراں ادارے نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اگست 2021ء میں جب سے طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے، طالبان کی جانب سے آزادی صحافت اور تحفظ کی یقین دہانی کے باوجود، ملک میں صحافیوں کو ہراساں کرنے، ان کے اغوا، ان پر حملوں اور زیر حراست لینے کے واقعات جاری ہیں۔

طالبان نے نو ماہ قبل اس وقت کی مغرب کی حمایت یافتہ افغان حکومت سے اقتدار چھینا، جس سے چند ہی دن قبل امریکی قیادت والی بین الاقوامی افواج کا اس تنازع زدہ ملک سے انخلا مکمل ہوا۔

اگست سےاب تک افغانستان سے اندازاً 1000صحافی ملک چھوڑ چکے ہیں، کیونکہ انھیں دھمکیاں، سخت قدغنوں اور معاشی تباہی کا خوف لاحق تھا، جب کہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق، بہت سے مقامی اخباری ادارے بند ہوچکے تھے۔ نگران ادارے نے بتایا کہ مئی 2021ء سے اپریل 2022ء تک کے عرصے میں ملک میں 75 میڈیا رائٹس کی خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی ہیں، جب کہ 12 صحافی ہلاک اور 30 گرفتار کیے گئے ہیں۔