پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ حکومت کی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں اور اس ضمن میں 215 ارب روپے کے ٹیکس لگانے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
اسحاق ڈار نے ہفتے کو قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس سے خطاب کے دوران بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی پیرس میں آئی ایم ایف کی سربراہ سے دو ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں طے پایا ہے کہ نویں جائزہ پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے ایک آخری کوشش کر لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین روزکے دوران آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ تفصیلی مذاکرات ہوئے ہیں اور حکومت نے 215 ارب روپے کے ٹیکس پر رضامندی ظاہر کی ہے اور ترمیم کے ذریعے یہ ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔
اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ عام آدمی پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور نہ ہی ترقیاتی بجٹ یا تنخواہوں میں کسی قسم کی کوئی کٹوتی ہوگی۔
حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 35 فی صد اضافے کی تجویز شامل ہے اور قومی اسمبلی سے ابھی بجٹ کی حتمی منظوری ہونا باقی ہے۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے حکومت کی کوششیں رنگ لائیں گی؟اسحاق ڈار نے کہا کہ ایکسٹرنل فنانسنگ میں کمی کی وجہ سے 213 ارب کے ٹیکس عائد کیے جائیں گے جب کہ اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی لائی جائے گی۔
اسحاق ڈار کے مطابق اس بجٹ میں ان تمام تبدیلیوں کو متعارف کرا دیا گیا ہے اور آئی ایم ایف کے تمام نکات پر عمل کر لیا ہے۔
وزیرِ خزانہ کا مزید کہنا تھا " ہم نے خلوص نیت کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔ اگر آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوا تو بسم اللہ وگرنہ گزارا تو ہو رہا ہے۔"
آئى ایم ایف کے عہدیدار پاکستان پر زور دیتے رہے ہیں کہ اسے قرض پروگرام کے نویں جائزے کو مکمل کرنے کے لیے مزید بیرونی فنڈز یقینی بنانا ہوں گے۔ تاہم اسحاق ڈار کا یہ اصرار رہا ہے کہ پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے تمام شرائط پوری کر چکا ہےاور وہ عالمی ادارے کی مزید شرائط نہیں مانیں گے۔
آئى ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان اپنا مالیاتی خسارہ کم کرے اور مالی سال برائے 2023 اور 2024 کے لیے بننے والے بجٹ میں آئى ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے، ایک ایسی پالیسی دستاویز کی شکل میں لے کر آئے جس پر ملک کی جماعتوں کا اتفاق ہو۔