پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے فرانس میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس کے موقع پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات کی ہے اور انہیں ملک کے معاشی نکتہ نظر سے آگاہ کیا ہے۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب رواں ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہونے جا رہا ہے اور پاکستان اس پروگرام کے اختتام سے قبل معطل فنڈ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق کرسٹالینا جارجیوا سے اپنی ملاقات میں شہباز شریف نے انہیں بتایا کہ توسیعی فنڈ سہولت کے تحت نویں جائزے کے لیے تمام پیشگی کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ آئی ایم ایف مختص فنڈز جلد جاری کرے جس سے ان کے بقول پاکستان کی معاشی استحکام کے لیے جاری کوششوں کو تقویت ملے گی۔
قبل ازیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ لو سے ملاقات کی اور اطلاعات کے مطابق ان سے بھی آئی ایم ایف سے فنڈز کے اجراء کے لیے امریکی مدد کی درخواست کی۔
معاشی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی کوششیں اپنی جگہ، لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔
’ایک ہفتے میں یہ ممکن نہیں ہوگا‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ پاکستان چاہتا ہے کہ 10 ویں جائزہ کو چھوڑ کر نواں جائزہ مکمل کرے اور اس کے تحت 1.2 ارب ڈالر کی قسط بھی جاری کی جائے۔
تاہم ان کا خیال ہے کہ ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے کیوں کہ پروگرام کے ختم ہونے میں اب ایک ہفتے کا وقت رہ گیا ہے اور اگر اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہو بھی جاتا ہے تو بھی آئی ایم ایف بورڈ سے اس کی منظوری کے لیے وقت درکار ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے نویں جائزے کی تمام شرائط کو مکمل کرنے کے لیے خاصی محنت کی ہے لہذا صرف نویں جائزہ کو مکمل کرتے ہوئے رکی ہوئی قسط جاری کی جائے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اشفاق حسن نے کہا کہ حکومت نئے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے کیونکہ انتخابات کا سال ہے تو حکومت کو لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد سے ان کے عوامی حمایت میں کمی واقع ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف بھی چاہے گا کہ وہ نیا پروگرام آنے والی حکومت کے ساتھ کرے۔
معاشی تجزیہ نگار فرخ سلیم نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے معاملے کو معاشی بنیادوں کی بجائے سیاسی انداز میں دیکھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ موجودہ بجٹ کو اپنے پروگرام کی بنیادی شرائط کے خلاف قرار دیا ہے اور 26 جون کو آئی ایم ایف بورڈ کے ہونے والے اجلاس کے ایجنڈا میں پاکستان شامل نہیں ہے۔
اس بنا پر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی منظوری اور قرض کی قسط کا اجراء مشکل نظر آتا ہے اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو وہ خصوصی اقدامات کے بعد ہی ممکن ہو گا۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی مقامی نمائندہ ایستھر روئز پیریز کہہ چکی ہیں کہ 2019 توسیعی فنڈ سہولت کے تحت زیر التوا ڈھائی ارب ڈالر میں سے کچھ رقم کے اجرا کے حوالے سے بورڈ کے جائزے سے قبل ضروری ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کو تین معاملات پر مطمئن کرے جن میں آئندہ مالی سال کے بجٹ سے متعلق تحفظات دور کرنا بھی شامل ہے۔
’بین الاقوامی تعلقات کاعمل دخل پہلے بھی رہا ہے‘
آئی ایم ایف کے بجٹ پر تحفظات کے بعد یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ معاہدہ نہیں ہو پائے گا اور گزشتہ کئی مہینوں سے زرمبادلہ کے گرتے ذخائر کے باعث بیل آؤٹ پیکج نہ ملنے کی صورت پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار یہ شکوہ کرتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے بہت سخت شرائط رکھی ہیں جو کہ ان کے بقول زیادتی ہے۔اسحاق ڈار یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کے حوالے سے آئی ایم ایف میں جیو پولیٹکس ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیوں کہ آئی ایم ایف صرف معاشی بنیاد پر کام نہیں کرتا اور ماضی میں بھی معاملات کو سیاسی بنیاد پر دیکھتا رہا ہے۔ان کے بقول آئی ایم ایف کے معاملے میں بین الاقوامی تعلقات کا عمل دخل ہمیشہ رہا ہے اور اس بار پاکستان کے معاملے میں بھی ہے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی حالیہ پالیسی میں تضادات پائے جاتے ہیں جس بنا پر وزیر خزانہ کی تنقید جائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ کا شکوہ اس وجہ سے بھی جائز ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے شرحِ سود میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث گزشتہ ساڑھے چار سال میں 135 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان کی مدد کی بجائے اسے مشرق کی جانب دھکیل رہے ہیں اور جب پاکستان اپنے دوست ممالک سے مدد لیتا ہے تو اس پر واشنگٹن ناراض ہوتا ہے۔
اشفاق حسن کے بقول آئی ایم ایف پروگرام گزشتہ 10 ماہ سے معطل ہونے کے باجود پاکستان کے معاملات چل رہے ہیں تو آئندہ بھی چلتے رہیں گے۔
’مہنگائی کرنا آئی ایم ایف کا مطالبہ نہیں‘
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ حکومتی رہنماؤں کے آئی ایم ایف کی جانب سے غیر مناسب رویے اور سخت شرائط کے بیانات بےکار کی باتیں ہیں کیوں کہ حکومت اصل مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتی۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا فارمولا بہت سادہ سا ہے کہ خسارہ کم کیا جائے، زرِمبالہ کی شرح ( ایکسچینج ریٹ) کو اوپن مارکیٹ پر چھوڑا جائے اور کوئی بھی چیز اس کی قیمتِ خرید سے سستی نہ بیچی جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کبھی نہیں کہتا کہ بجلی کی قیمت بڑھائیں لیکن حکومت خسارہ ختم کرنے کے بجائے بجلی کی قیمت بڑھا دیتی ہے۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ انتخابات کے سال کے باعث حکومت سیاسی بنیادوں پر آئی ایم ایف نہیں جانا چاہتی ہے لیکن ان کے بقول معاشی طور پر آئی ایم ایف کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی راستہ ہے تو اسے سامنے لایا جائے تاکہ مارکیٹ میں بے یقینی کی صورت ختم ہو اور معیشت کو سہارا مل سکے۔