قومی اسمبلی: حکومت نے 11 آرڈیننس اور حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد واپس لے لی

فائل فوٹو

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے قومی اسمبلی سے جلد بازی میں منظور ہونے والے 11 آرڈیننسز اور بل معطل کرتے ہوئے انہیں بحث کے لیے قائمہ کمیٹیوں کو بجھوانے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ جس کے بعد قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔

یہ پیش رفت جمعے کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت ہوئی جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد واپس لینے کا اعلان کیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت جلد بازی میں منظور کیے گئے تمام آرڈیننس واپس لے گی جبکہ دوبارہ جائزہ لینے کے لیے یہ آرڈیننس متعلقہ پارلیمانی کمیٹیوں کو بھیجے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی قواعد کو نظر انداز کرنے پر اپوزیشن ڈپٹی اسپیکر کے خلاف احتجاجاً تحریکِ عدم اعتماد پیش گئی تھی لیکن اب یہ تحریک واپس لینے کا اعلان کرتے ہیں۔

دوسری جانب حکومت نے ایک ہی دن میں منظور کیے گئے 11 آرڈیننس معطل کرتے ہوئے انہیں پارلیمانی قائمہ کمیٹیوں میں بحث کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومتی رہنما اور وفاقی وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے کہا کہ پارلیمنٹ کا ماحول بہتر بنانے اور اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے منظور ہونے والے آرڈیننس واپس لے رہے ہیں۔

پرویز خٹک نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایوان میں اتفاقِ رائے سے قانون سازی کی جائے۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں گزشتہ ہفتے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیرِ صدارت اجلاس میں حکومت نے نو آرڈیننس اور دو بل قائمہ کمیٹیوں کی منظوری اور بحث کے بغیر منظور کیے تھے جس پر اپوزیشن جماعتوں نے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے شدید ردّعمل کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اور وزرا نے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کیں جس کے نتیجے میں جمعے کو دونوں جانب سے متفقہ فیصلے سامنے آئے۔

حکومت نے جلد بازی میں جن آرڈیننسز اور بلز کی منظوری لی تھی ان میں قومی احتساب آرڈیننس ترمیمی بل، خواتین کے ملکیتی حقوق کے تخفظ کے لیے سول انفورسمنٹ آف ایڈمنسٹریشن آف ویمن پراپرٹی رائٹس آرڈیننس، پروسیجر کوڈ (ترمیمی) آرڈیننس، بے نامی ٹرانزیکشن آرڈیننس، ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹ آرڈیننس، لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی آرڈیننس، وہسل بلوورز ایکٹ اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل 2019 شامل ہیں۔

اسی دوران حکومت نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز اتھارٹی، انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم اور تعزیراتِ پاکستان میں ترمیم سے متعلق آرڈیننسز کو 120 دن کی توسیع بھی دی تھی۔

خیال رہے کہ پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں حزبِ اختلاف کی اکثریت ہے اور اپوزیشن ارکان کثرتِ رائے سے ان آرڈیننس کو مسترد کر سکتے ہیں۔

حکومت مستقل قانون سازی کے بجائے عارضی قانون سازی یعنی آرڈیننس کے ذریعے حکومتی امور چلانے کو ترجیح دے رہی ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت کے اس اقدام کو منتخب ایوان کی توہین قرار دیتی ہیں۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرنے پر اپوزیشن، قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔