دوستوں کو یاد رکھوں گا لیکن پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو نہیں، گرانٹ فلاور

فائل فوٹو

پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد پانچ رکنی کوچنگ ٹیم کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہیڈ کوچ مکی آرتھر اپنی تین سالہ مدت پوری کر چکے ہیں۔ اسی طرح دیگر کوچنگ سٹاف کا کانٹریکٹ بھی ختم ہو چکا ہے۔

ان میں سے صرف بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کوچنگ سٹاف کے ایسے رکن ہیں جو پانچ سال تک پاکستانی ٹیم کے ساتھ منسلک رہے۔ اس دوران انہوں نے پہلے دو سال پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس اور باقی تین سال مکی آرتھر کے ساتھ کام کیا۔

پاکستان سے رخصت ہوتے ہوئے انہوں نے ای ایس پی این کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی ٹیم کے ساتھ گزارے گئے پانچ برسوں کے تجربے کے بارے میں کہا کہ وہ پاکستان سے اچھی یادیں لے کر جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ان پانچ برسوں میں بننے والے دوستوں کو یاد کریں گے جب کہ ایسے لوگوں کو یاد نہیں کریں گے جنہوں نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی۔

اس سلسلے میں انہوں نے چند سابق کرکٹرز کا ذکر کیا جو بقول ان کے بلاجواز ان پر تنقید کرتے رہے ہیں اور انہیں پاکستانی ٹیم کی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلوں، صحافیوں اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں جاری سیاست سے بھی وہ کسی قدر مایوس رہے ہیں۔

48 سالہ گرانٹ فلاور زمبابوے کے سابق کرکٹر ہیں، جنہوں نے 1992 سے 2010 کے دوران اپنے بین الاقوامی کیریئر میں 67 ٹیسٹ اور 221 ون ڈے میچ کھیلے۔ انہوں نے 2014 میں پاکستانی ٹیم کے بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے تین سال کا معاہدہ کیا اور پھر 2017 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کے معاہدے میں مزید دو سال کی توسیع کر دی تھی۔

گرانٹ فلاور کا کہنا ہے کہ کوچ کی حیثیت سے ان کا بہترین لمحہ وہ تھا جب پاکستانی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی۔ تاہم وہ حالیہ ورلڈ کپ کے ابتدائی میچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستانی ٹیم کے بہت ہی کم سکور پر آؤٹ ہونے کے واقعے کو کبھی بھلا نہیں سکیں گے جس کے باعث پاکستان سیمی فائنل میں پہنچنے سے محروم ہو گیا تھا۔

اپنے نٹرویو میں گرانٹ فلاور کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی ٹیم کے بلے باز بابر اعظم کی صلاحیتوں کے بہت معترف ہیں اور ان کے خیال میں بابر اعظم کا کیریئر انتہائی شاندار رہے گا۔

فلاور نے بتایا کہ انہوں نے جن کھلاڑیوں کی کوچنگ کی ہے ان میں سے بابر اعظم بہترین کھلاڑی ہیں۔

گرانٹ فلاور کے مطابق اوپنر امام الحق بھی سخت محنت کر ہے ہیں اور وہ بھی ٹیم میں اپنے لیے ایک خاص جگہ بنانے میں کامیاب ہوں گے۔

فلاور البتہ دوسرے اوپنر فخر زمان اور آل راؤنڈر حارث سہیل سے مایوس دکھائی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان دونوں کھلاڑیوں پر بہت محنت کی لیکن وہ اپنی ٹیکنیک بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں جن کا انہیں افسوس ہے۔ ان کے مطابق یہ دونوں کھلاڑی کہیں بہتر کاکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس کے لیے زیادہ کوشش نہیں کی۔۔

گرانٹ فلاور کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کی صلاحیت بڑھانے کے لیے پاکستان میں مضبوط کرکٹ سٹرکچر کی ضرورت ہے۔

اپنے کوچنگ کے چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے گرانٹ فلاور کہتے ہیں کہ کوچ کا کام کھلاڑیوں سے ان کی بہترین صلاحیت کے مطابق کارکردگی حاصل کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ کوچ کھلاڑیوں پر اور کھلاڑی کوچ پر مکمل اعتماد کریں۔ اگر کسی بھی فریق میں اعتماد کی کمی ہو تو کوچنگ کامیاب نہیں رہتی۔ لہذا کوچ اور کھلاڑیوں کا قریبی تعلق انتہائی اہم ہوتا ہے۔

گرانٹ فلاور نے بنگلہ دیش کی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔