|
کوئٹہ -- "ایک وقت تھا کہ جب کوئلے کی کانوں کے اندر حادثات سے کان کن مارے جاتے تھے مگر اب وہ اپنی رہائش گاہوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔"
یہ الفاظ ہیں بلوچستان کے ضلع ژوب سے تعلق رکھنے والے اختر جان کے جن کے دو چچا زاد بھائی دکی کوئلہ کان حملے میں مارے گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دکی واقعے میں ان کے علاقے سے تعلق رکھنے والے چھ مزدور مارے گئے ہیں جن میں سے مولا داد اور روزی خان ان کے چچا زاد بھائی ہیں۔
دونوں نوجوانوں کی تدفین ژوب کے علاقے قمردین میں کر دی گئی ہے۔ واقعے کے بعد شہر میں سوگ کا سماں ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب بلوچستان کے ضلع دکی میں کوئلے کی کانوں پر نامعلوم مسلح افراد نے راکٹ حملوں اور دستی بموں سے حملہ کیا تھا جب کہ فائرنگ سے بھی مزدوروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعے میں اب تک 20 کان کنوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
اختر جان کے بقول روزی خان اور مولا داد غربت اور تنگ دستی کے باعث دکی میں کوئلہ کانوں میں یہ سخت کام کرنے پر مجبور تھے اور دونوں گھر کے واحد کفیل بھی تھے۔ روزی خان کے تین بچے ہیں جب کہ مولا داد کا ایک بیٹا ہے۔
اختر جان نے بتایا کہ روزی خان اکثر انہیں یہ کہتے تھے کہ "اگر کوئی اور روزگار کا ذریعہ مل جائے تو وہ اس خطرناک اور جان لیوا کام کو چھوڑ دیں گے۔"
اختر جان کے مطابق ان کے علاقے میں غربت زیادہ ہے اور روزگار کے مواقع کم ہیں۔ سات ہزار سے زائد افراد دکی، چمالانگ، مچھ، بولان اور دیگر علاقوں میں کوئلے اور کرومائیٹ کی کانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل ہمارے علاقے کے لوگ کوئلہ کان حادثات میں مارے جاتے تھے اور اب تک اس علاقے میں 300 سے زائد مزدوروں کی لاشیں لائی گئی ہیں مگر اب صورتِ حال یہ ہے کہ کانوں میں پیش آنے والے حادثات کے علاوہ مزدوروں کو رات کے اندھیرے میں بھی اس طرح بے دردی سے مارنے کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
ان کے مطابق ژوب سے تعلق رکھنے والے مزدور یا تو کان حادثات میں مارے جاتے ہیں یا انہیں اغوا کیا جاتا ہے یا جب وہ اپنے گھروں کو جاتے ہیں تو راستے میں ٖڈاکو ان کے مہینے بھر کی محنت ان سے لوٹ کر انہیں زخمی کرتے ہیں مزدور جائے تو کہاں جائے۔
دکی بلوچستان کا ایک چھوٹا ضلع ہے۔ یہ علاقہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ شہر سے لگ بھگ 225 کلومیٹر دور ہے جہاں کوئلے کی کانیں ہیں۔ ان کانوں کا کوئلہ مقامی آبادی کے معاش کا بڑا ذریعہ ہے۔
کانوں میں بلوچستان سے کوئٹہ اور پشین کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے علاقوں سوات اور شانگلہ کے مزدور بھی کام کرتے ہیں جب کہ کچھ کان کنوں کا تعلق افغانستان سے بھی ہے۔
واقعے میں زخمی ہونے والے چار مزدور کوئٹہ سول اسپتال کے ٹراما سینٹر میں زیر علاج ہیں۔
ان میں سے ایک زخمی 24 سالہ حمد اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کو ٹانگ میں گولی لگی ہے وہ شدید درد میں مبتلا ہیں مگر اس تکلیف سے زیادہ انہیں اس بات کی پرواہ ہے کہ حملے کے دوران ان کے دیگر ساتھی جو وہاں موجود تھے وہ کس حال میں ہیں۔
ان کے بقول: اس رات ہم کمرے کی چھت پر بیٹھے تھے کہ اچانک فائرنگ اور دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا، میں نے ایسا منظر پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔
"جیسے ہی حملہ شروع ہوا تو ہم سب دوست بھاگ گئے اور مختلف جگہوں میں پناہ لی فائرنگ بہت شدید تھی اور مسلسل دو گھنٹوں تک جاری رہی، مجھے ٹانگ میں گولی لگی ہے میں نے اسی وقت یہ سوچ لیا تھا کہ آج زندہ بچنا ناممکن ہے۔"
مذاکرات کے بعد لواحقین کا دھرنا ختم
وزیرِ اعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی ہدایت پر وزرا اور صوبائی حکام جمعے کی شام دکی پہنچے تھے۔ جہاں اُنہوں نے لاشوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھے لواحقین سے کامیاب مذاکرات کیے۔
صوبائی حکومت نے واقعے میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو فی کس 15 لاکھ روپے دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ شدید زخمیوں کو پانچ لاکھ جب کہ معمولی زخمیوں کو دو لاکھ روپے فی کس دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی نے واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ایکس' پر ایک بیان میں ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ غیر مسلح شہریوں کو نشانہ بنانا قابلِ مذمت ہے۔ حکومت ذمے داروں کا تعین کر کے انہیں سزا دے۔
واقعے کے خلاف احتجاج
مذاکرات سے قبل جمعے کو مزدوروں کی ہلاکتوں کے خلاف لاشوں کے ہمراہ بڑے پیمانے پر مزدور تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور مقامی افراد نے دھرنا دیا۔
واقعے میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے غم میں زار و قطار روتے دکھائی دیے۔
واقعے کے خلاف دکی میں جمعے کو مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی اور تمام دکانیں اور کاروباری مراکز بھی بند رہے۔
دکی دھرنے میں شامل ایک مزدور رہنما محمد شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم بے گناہ کان کنوں کی اس طرح بے دردی سے موت پر ہرگز خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
مظاہرین نے صوبے بھر میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کو تحفظ دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے صدر لالا سلطان محمد کہتے ہیں کہ مزدور کوئلے کی کان ہی میں نہیں بلکہ اب کان سے باہر بھی محفوظ نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ رواں سال بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں مختلف واقعات میں اب تک 73 مزدور مارے گئے ہیں۔
ان کے بقول یہ واقعات ہرنائی، خوست، دکی، سورینج، کوہاٹ، تربت، مچھ اور درہ آدم خیل میں ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال ملک بھر میں کوئلے اور دیگر کانوں میں حادثات سے 147 واقعات ہوئے ہیں جن میں 90 کان کن بلوچستان میں ہلاک ہوئے ہیں۔
لالا سلطان کا کہنا تھا کہ مزدوروں کے لواحقین کو 15 لاکھ کے بجائے دہشت گردی الاؤنس کے تحت 25 لاکھ روپے فی کس ملنے چاہئیں۔