حکومت اور 'گوادر کو حق دو' تحریک کے درمیان معاہدہ، 31 روز بعد دھرنا ختم

بلوچستان حکومت نے دھرنا عمائدین کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے۔

بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر میں عوامی سطح پر مطالبات کے حق میں جاری دھرنا تقریباً ایک ماہ بعد ختم کر دیا گیا ہے۔

جمعرات کو وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور 'گوادر کو حق دو' تحریک کے قائد مولانا ہداہت الرحمٰن کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ اور مولانا ہدایت الرحمٰن کے درمیان گوادر کے شہریوں کو عوامی سطح پر درپیش مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کے دو دور بھی ہوئے تھے۔

حکومت نے دھرنا عمائدین کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے اور مولانا ہدایت الرحمٰن پر درج تمام مقدمات واپس لینے سمیت ان کا نام فورتھ شیڈول سے خارج کر دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گوادر سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد گزشتہ 31 روز سے سراپا احتجاج تھے۔ اس ضمن میں مظاہرین نے گوادر میں کیمپ لگا کر دھرنا دے رکھا تھا۔

مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ گوادر کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ چیک پوسٹوں کو ختم کرتے ہوئے ماہی گیروں پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ مظاہرین سمندر میں ٹرالرز کے ذریعے شکار کی بندش کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹرالرز سے شکار سے مقامی ماہی گیر شدید متاثر ہو رہے ہیں جب کہ سمندری حیات کو بھی اس سے نقصان پہنچ رہا ہے۔

لوڈشیڈنگ کا خاتمہ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور مقامی افراد کو روزگار کی فراہمی بھی دھرنا دینے والوں کے مطالبات میں شامل تھے۔

معاہدے کے مندرجات

بلوچستان حکومت اور 'گوادر کو حق دو' تحریک کے درمیان ہونے والے معاہدے پر حکومت کی جانب سے وزیر اعلیٰ بلوچستان اور تحریک کی جانب سے مولانا ہدایت الرحمان نے دستخط کیے۔

معاہدے کے مطابق حکومت نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر فیشریز کا تبادلہ کر دیا ہے۔ مستقبل میں اگر کوئی ٹرالر اسسٹنٹ کمشنر کی حدود میں پایا گیا تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔

حکام ٹرالنگ کی روک تھام کی مانیٹرنگ کریں گے اور جوائنٹ پیٹرولنگ کی جائے گی جس میں انتظامیہ کے ساتھ مقامی ماہی گیر بھی شامل ہوں گے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو دھرنا عمائدین کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔

معاہدے کے مطابق ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی مکمل آزادی ہوگی اور ان کی معاونت کے لیے فیشریز آفس میں باقاعدہ ایک ڈیسک قائم کی جائے گی۔

معاہدے میں کہا گیا ہے کہ سرحد پر تجارت کے انتظامی امور فرنٹیئر کور (ایف سی) سے لے کر ضلعی انتظامیہ کے حوالے کی جائے گا اور انہیں تمام اختیارات دیے جائیں گے۔

سرحد پر ٹوکن، ای ٹیگ، میسج اور لسٹنگ سسٹم کا خاتمہ کیا جائے گا اور اس کے لیے حکومت نے ایک مہینے کا وقت مانگا ہے۔

حکومت نے دھرنا عمائدین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بارڈرز پر کاروبار کے لیے ٹریڈ یونیز اور کمیٹیوں کے خاتمے کا حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔ بارڈر پر کاروبار ضلعی انتظامیہ کے مرتب کردہ ضابطہ کار کے مطابق کیا جائے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

گوادر دھرنا: 'ہم سی پیک کے خلاف نہیں، اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں'

غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ

معاہدے میں کہا گیا ہے کہ حکومت ضلع گوادر، کیچ اور پنجگور میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کے لیے مشترکہ کمیٹی تشکیل دے گی جو ان علاقوں میں سروے کر کے رپورٹ مرتب کرے گی اور غیر ضروری چیک پوسٹوں اور چوکیوں کے خاتمے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔

حکومت ضلع گوادر کے ماہی گیروں کی مالی امداد کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کرے گی اور ایکسپریس وے متاثرین کا دوبارہ سروے کر کے انہیں جلد معاوضہ دیا جائے گا۔

حکومت 'گوادر کو حق دو تحریک' کے تمام کارکنوں پر درج مقدمات کو واپس لے گے جب کہ کوسٹ گارڈ اور کسٹم کی جانب سے تحویل میں لی جانے والی کشتیاں، لانچز اور گاڑیاں چھوڑ دی جائیں گی۔

دھرنا عمائدین سے ہونے والے مذاکرات سے قبل جمعرات کو ہی وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی زیرِ صدارت گوادر میں جاری ترقیاتی منصوبوں میں پیش رفت کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں وفاقی وزراء زبیدہ جلال اور اسد عمر کے سمیت وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سی پیک خالد منصور بھی شریک تھے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان دھرنے کے شرکا سے خطاب کر رہے ہیں۔

اجلاس میں 'گوادر کو حق دو' تحریک کے مطالبات اور ان پر عمل درآمد کی پیش رفت کے ساتھ گوادر یونیورسٹی، گوادر کیڈٹ کالج، ووکیشنل ٹریننگ سینٹر کے قیام اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کے بعد وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے گوادر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "ہم وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر گوادر آئے ہیں تاکہ یہاں وفاق کی جانب سے جاری منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لے سکیں۔"

'دھرنا ختم کیا ہے تحریک نہیں'

حکومت کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے بعد تحریک کے قائد مولانا ہدایت اللہ نے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ " حکومت اور ہمارے درمیان جو معاہدے ہوا امید کے کہ اس معاہدے پر سنجیدگی سے عمل درآد ہوگا اور روزمرہ کی بنیاد پر صوبائی حکومت اس کی مانیٹرنگ کرے گی۔"

انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے افسران کو پابند کرے گی کی وہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے ہم کوئی زبانی دعوے نہیں مانتے اور معاہدے کے بعد دھرنا ختم ہوا ہے تحریک نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ان دنوں حالات بہت خراب ہیں ماؤں کے ہزاروں کی تعداد میں بچے لاپتا ہیں، ہزاروں نوجوان منشیات کا شکار ہوچکے ہیں، ہزاروں لوگوں کی روزانہ چیک پوسٹوں پر تذلیل ہورہی ہے اور ہزاروں نوجوان بے روز گار ہیں۔

ان کے بقول بلوچستان وسائل سے مالا مال صوبہ ہے مگر یہاں کے لوگ محروم اور محکوم ہیں۔گوادر کے لوگ پانی، بجلی، صحت، تعلیم اور روزگار سے محروم ہیں۔

SEE ALSO: گوادر میں دھرنے کا آنکھوں دیکھا حال، 'اب سیکیورٹی ناکوں پر زیادہ پوچھ گچھ نہیں ہوتی'

انہوں نے کہ حکومت سے معاہدے اور اس پر عمل درآمد کی یقین دہانی پر ہم اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور اگر عمل درآمد نہ ہوا تو مستقبل میں بھی ہم اپنا پرامن احتجاج دوبارہ شروع کرسکتے ہیں۔

اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمان اور دھرنے کے شرکاء کو حقوق کے لیے جدوجہد کی جسے سراہتے ہیں۔

ان کے بقول، "دھرنے کے شرکا جن مسائل کا ذکر کر رہے ہیں وہ ہم نے بھی محسوس کیے ہیں۔ سابق صوبائی حکومت کی جانب سے بعض اقدامات ایسے تھے جو بلوچستان کے عوام کے حق میں ہر گز نہیں تھے۔"

انہوں نے کہا کہ "ہم نے محوس کیا کہ یہاں لوگوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے، سرحدوں پر سختیاں بڑھا دی گئی ہیں، غیر قانونی ٹرالنگ پر کوئی کنٹرول نہیں۔

'گوادر کو حق دو' تحریک کا دھرنا کب شروع ہوا؟

جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے گوادر کے سیاسی و سماجی رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن گزشتہ کئی ماہ سے مقامی افراد کو حقوق دینے کے مطالبات کر رہے تھے۔

ان کی قیادت میں سیکڑوں افراد نے احتجاج، ریلیاں اور جلسے بھی کیے۔ اٹھائیس نومبر کو گوادر میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور دیگر حقوق کے حصول کے لیے ہزاروں خواتین نے بھی ریلی نکالی تھی۔ خواتین کی اس ریلی کو شہر میں نکالی جانے والی سب سے بڑی ریلی قرار دیا گیا تھا۔

منتظمین کا دعویٰ تھا کہ 'گوادر کو حق دو' کے نام سے نکالی گئی اس ریلی میں 15 ہزار کے لگ بھگ خواتین اور بچوں نے شرکت کی تھی۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان سے مذاکرت سے قبل کئی بار حکومتی مذاکراتی ٹیم نے مولانا ہدایت الرحمٰن سے کئی ملاقاتیں کی تھیں۔

مذاکرات کے حوالے سے مولانا ہدایت الرحمٰن نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ کمیٹی میں شامل وزراء کے پاس مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں۔

حکومت سے کامیاب مذاکرات اور معاہدے کے بعد جہاں تحریک کے تحت جاری دھرنا ختم ہوا وہی گوادر میں جشن کا سماں ہے۔

گوادر کے مقامی صحافی سلمان ہاشم نے بتایا کہ گوادر کے ماہی گیر اور دیگر لوگ حکومت کی جانب سے معاہدے پر دستخط اور یقین دہانی کرانے پر خوش تھے اور ان کے چہروں پر امید کی ایک کرن نظر آئی ہے۔

ماسی زینب نے 'گوادر کو حق دو' تحریک میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 70 سال کی عمر کے باوجود وہ نہ صرف خود صفِ اول میں موجود رہیں بلکہ دیگر خواتین کو بھی متحرک کیا۔

مولانا ہدایت الرحمٰن، دھرنے کے شرکا اور وزیرِ اعلی بلوچستان نے بھی ماسی زینب کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔