وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اعلان کیا ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ 21-2020 میں کوئی نیا ٹیکس لاگو نہیں کرے گی۔
حفیظ شیخ نے آئندہ بجٹ کو 'کرونا بجٹ' کا نام دیتے ہوئے کہا کہ اس اسمارٹ بجٹ میں معیشت کو دوبارہ سے رواں رکھنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
نجی ٹیلیویژن کو دیے گئے انٹرویو میں وزیرِ اعظم کے مشیر نے کہا کہ حکومت آنے والے بجٹ میں بہت سی اشیا پر ڈیوٹی صفر کرے گی جس سے صنعتوں اور پاکستان کے عوام کو راحت ملے گی۔
'کرونا بجٹ' کے حوالے سے حفیظ شیخ نے مزید کہا کہ حکومت اسمارٹ بجٹ تیار کر رہی ہے جس کے تحت حکومتی اخراجات اور ترقیاتی بجٹ کو بھی محدود رکھا جائے گا کیوں کہ آئندہ مالی سال بھی کرونا وائرس کے اثرات ملکی معیشت پر جاری رہیں گے۔
خیال رہے کہ وزارتِ خزانہ نے آئندہ مالی سال کے لیے مجموعی قومی پیداوار کا ہدف ایک فی صد رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ آئندہ بجٹ میں اہداف کا تعین حکومت کے لیے مشکل مرحلہ ہوگا تاہم بہتر حکمت عملی سے مشکل صورتِ حال کو معیشت کی بہتری میں بدلا جا سکتا ہے۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر اِکرام الحق کہتے ہیں کہ عالمی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے باعث پاکستان طے کردہ ضوابط میں کچھ رعایت تو حاصل کرسکتا ہے لیکن زیادہ تبدیلیاں نہیں کرسکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اِکرام الحق نے کہا کہ صوبوں کو محصولات میں سے ان کا حصہ دینے، قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کے اخراجات کے بعد وفاق کے پاس کچھ زیادہ وسائل باقی نہیں رہتے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قرضوں کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات (لائبلیٹیز) معیشت کے مجموعی حجم سے بھی بڑھ چکے ہیں۔
کرونا وائرس کی عالمی صورتِ حال کے باعث پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی ادائیگی میں سہولت حاصل ہوئی ہے۔
اپنے جاری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حکومت آئندہ مالی سال میں تقریباََ چار ارب ڈالرز کے اضافی بیرونی قرضوں کا حصول چاہتی ہے۔
حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ اسٹریٹجی پیپر کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت دفاع، سماجی تحفظ، سرکاری ترقیاتی پروگرام، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور غذائی تحفظ ترجیحات میں شامل ہیں۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر اِکرام الحق کہتے ہیں کہ بجٹ میں حکمت عملی کے تحت حکومت کو غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنا ہوں گے جو کہ اندازے کے مطابق ایشیا میں سب سے زیادہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ ملکی معیشت پر جمود طاری ہے۔ ایسے میں اگر حکومت ترقیاتی بجٹ میں بڑی کمی لائی بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا.
ڈاکٹر اِکرام الحق نے کہا کہ ترقیاتی منصوبے نہ لائے گئے تو بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ پاکستان لمبے عرصے کے لیے معاشی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد بے روزگار اور دو سے سات کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں جب کہ 10 لاکھ چھوٹے کاروبار ہمیشہ کے لیے بند ہو سکتے ہیں۔
عالمی معاشی اداروں کا اندازہ ہے کہ معاشی نقصانات کی وجہ سے پاکستان کی قومی پیداوار 1.6 فی صد کمی سے اِس سال منفی 1.57 جی ڈی پی گروتھ اور ریکارڈ مالی خسارہ 9.6 فی صد متوقع ہے۔