افضل رحمٰن
لاهور ہائی کورٹ نے کالعدم سیاسی جماعت الدعوة کے امیر حافظ سعید کی نظر بندی کے خلاف ایک مقامی وکیل کی حبس بے جا کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے ناقابل سماعت قرار دے دیا کہ اس کے ساتھ حکومتی حکم کی نقل موجود نہیں ہے۔
اس سے قبل ہائی کورٹ کے دفتر نے درخواست کے ساتھ حکومتی حکم کی نقل نہ ہونے پر اسے اعتراض لگا کر مسترد کر دیا تھا۔
منگل کے روز لاهور ہائی کورٹ میں درخواست گذار کی دائر ایک اور درخواست کی سماعت ہوئی جس میں عدالت سے کہا گیا تھا کہ وہ ہائی کورٹ آفس کے اعتراض کو نظر انداز کر کے حبس بے جا کی درخواست کو زیر سماعت لائے۔ عدالت عالیہ نے سماعت کے بعد ہائی کورٹ آفس کے اعتراض کو برقرار رکھا۔
اب اس درخواست کی سماعت اس صورت ممکن ہوگی جب حکومتی حکم کی نقل اس کے ساتھ نتھی کی جائے گی۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ اگر لاهور ہائی کورٹ آفس کا اعتراض دور کر دیا جاتا ہے اور حکومتی حکم کی نقل فراہم کر دی جاتی ہے تو درخواست کی سماعت ممکنہ طور پر شروع ہو جائے گی۔
معروف قانونی ماہر احمر ہلال صوفی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں حکومت نے نظر بندی کا جو حکم جاری کیا ہے اس کو بنیادی اہمیت حاصل رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حکومتی حکم کی اگر ٹھوس شواہد پر ہوئی تو پھر یہ حکم برقرار رہے گا ورنہ حکومت کو شرمندگی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ٹھوس شواہد کی تشريح کرتے ہوئے احمر ہلال صوفی نے کہا کہ انسداد دهشت گردی کے قانون میں یہ بات موجود ہے کہ ایسی نظر بندی کے لیے حساس اداروں کی ٹھوس معلومات بنیاد میں ہونی چاہئیں ۔
پنجاب حکومت نے کالعدم جماعت الدعوة کے امیر حافظ سعید اور اس ادارے سے متعلق دیگر چار افراد کی نظر بندی کا حکم وفاقی وزارت داخلہ کی ان ہدایات کی روشنی میں جاری کیا تھا جن میں کہا گیا تھا کہ کالعدم جماعت الدعوة اور اس کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو واچ لسٹ پر رکھ دیا گیا ہے اور یہ کہ حافظ سعید اور چار دیگر افراد کو حفاظتی حراست میں لے لیا جائے۔
گذشتہ منگل کو انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل نے بھی کہا تھا کہ کالعدم جماعت الدعوة کے امیر کی نظر بندی کا فیصلہ ریاستی اداروں کا پالیسی فیصلہ ہے۔