امریکی فوج اپنے ’اثاثے تیار حالت‘ میں لاچکی ہے اور صدر اوباما کی جانب سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کی تعمیل کے لیے تیار ہے: چک ہیگل
واشنگٹن —
امریکہ کے وزیرِ دفاع چک ہیگل نے کہا ہے کہ صدر براک اوباما کی جانب سے شام پر حملے کا حکم ملنے کی صورت میں امریکی افواج کاروائی کے لیے تیار ہیں۔
منگل کو معاصر نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں چک ہیگل نے بتایا کہ امریکی فوج اپنے }اثاثے تیار حالت{ میں لاچکی ہے اور صدر اوباما کی جانب سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کی تعمیل کے لیے تیار ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اوباما انتظامیہ کی جانب سے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کےبارے میں منگل کو ایک باضابطہ بیان متوقع ہے جس میں ان الزامات کے درست ہونے سے متعلق مزید معلومات سامنے لائی جاسکتی ہیں۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان الزامات کی سچائی جاننے کے لیے معلومات اکٹھی کر رہی ہیں۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت نے گزشتہ ہفتے دارالحکومت دمشق کے نواح میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے جس میں اطلاعات کے مطابق سیکڑوں عام شہری ہلاک ہوگئے تھے۔
مغربی ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر اسد حکومت کو "سبق سکھانے" کے لیے دمشق کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کاروائی پہ غور کر رہے ہیں۔
برطانوی ذرائع ابلاغ نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت شام پر ممکنہ فوجی حملے سے متعلق منصوبے تشکیل دے رہی ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم کیمیائی ہتھیاروں کے ماضی میں کیے جانے والے مبینہ استعمال کی تحقیقات کے لیے پہلے ہی دمشق میں موجود ہے۔
عالمی ادارے کے معائنہ کاروں نے پیر کو دارالحکومت کے اس نواحی علاقے کا دورہ کرکے متاثرین کے بیانات بھی ریکارڈ کیے تھے جہاں شامی حزبِ اختلاف کے مطابق گزشتہ ہفتے سرکاری افواج نے زہریلی گیس کا حملہ کیا تھا۔
تاہم شامی حکومت نے عالمی ادارے کے معائنہ کاروں کو سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر منگل کو متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے سے روک دیا ہے۔
منگل کو معاصر نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں چک ہیگل نے بتایا کہ امریکی فوج اپنے }اثاثے تیار حالت{ میں لاچکی ہے اور صدر اوباما کی جانب سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کی تعمیل کے لیے تیار ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اوباما انتظامیہ کی جانب سے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کےبارے میں منگل کو ایک باضابطہ بیان متوقع ہے جس میں ان الزامات کے درست ہونے سے متعلق مزید معلومات سامنے لائی جاسکتی ہیں۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان الزامات کی سچائی جاننے کے لیے معلومات اکٹھی کر رہی ہیں۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت نے گزشتہ ہفتے دارالحکومت دمشق کے نواح میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے جس میں اطلاعات کے مطابق سیکڑوں عام شہری ہلاک ہوگئے تھے۔
مغربی ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر اسد حکومت کو "سبق سکھانے" کے لیے دمشق کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کاروائی پہ غور کر رہے ہیں۔
برطانوی ذرائع ابلاغ نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت شام پر ممکنہ فوجی حملے سے متعلق منصوبے تشکیل دے رہی ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم کیمیائی ہتھیاروں کے ماضی میں کیے جانے والے مبینہ استعمال کی تحقیقات کے لیے پہلے ہی دمشق میں موجود ہے۔
عالمی ادارے کے معائنہ کاروں نے پیر کو دارالحکومت کے اس نواحی علاقے کا دورہ کرکے متاثرین کے بیانات بھی ریکارڈ کیے تھے جہاں شامی حزبِ اختلاف کے مطابق گزشتہ ہفتے سرکاری افواج نے زہریلی گیس کا حملہ کیا تھا۔
تاہم شامی حکومت نے عالمی ادارے کے معائنہ کاروں کو سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر منگل کو متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے سے روک دیا ہے۔