فلسطینی عسکری تنظیم حماس نے غزہ میں جاری لڑائی کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسے جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی سے متعلق نئی پیش کش موصول ہوئی ہے جس کا وہ جائزہ لے رہی ہے۔
حماس کو مبینہ طور پر ملنے والی پیشکش ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب مختلف معاونین نے اسرائیل سے جنگ بندی پر مذاکرات کیے ہیں۔
حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے گفتگو میں بتایا کہ جنگ بندی کے لیے تجویز کیے گئے منصوبے کے تین مراحل ہیں۔ ان کے بقول پہلے مرحلے میں حماس عام شہریوں کو رہا کرے گی اور دوسرے مرحلے میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔
حماس کے اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ تیسرا اور آخری مرحلہ ان ہلاک ہونے والے یرغمال افراد کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کرنے کا ہوگا جو غزہ جنگ میں مارے گئے ہیں۔
حماس کے عہدیدار نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ تینوں مراحل کتنے عرصے میں مکمل ہوں گے اور جب جنگ بندی کا تیسرا مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا تو اس کے بعد کیا ہوگا۔
SEE ALSO: غزہ میں ایک ماہ کی جنگ بندی کیلئے اسرائیل اور حماس میں مذاکرات کی اطلاعاتواضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر زمین، فضا اور بحری راستے سے اچانک حملہ کیا تھا۔ حماس کے غیر متوقع حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں لگ بھگ ایک تہائی فوجی اہلکار شامل تھے۔
حماس نے اس حملے کے دوران 240 کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے 100 سے زائد کو نومبر میں چند دن کے عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے دوران رہا کر دیا گیا تھا اور اب بھی کئی یرغمالی حماس کے پاس موجود ہیں۔
سات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ کا گھیراؤ کر کے حماس کے خاتمے اور یرغمالوں کی رہائی تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیل کی بمباری اور زمینی کارروائی میں 26 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس دوران 60 ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کی جنگی کارروائی اب بھی جاری ہے جب کہ 23 لاکھ نفوس پر مشتمل دنیا کے اس گنجان آباد علاقے کی 90 فی صد آباد بے گھر ہو چکی ہے۔
نومبر 2023 میں سات دن کی عارضی جنگ بندی کے بعد اب پہلی بار ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ لڑائی روکنے اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے اقدامات پر دونوں فریق کسی حد تک راضی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنگ بندی سے متعلق تجاویز فرانس میں امریکہ، مصر اور اسرائیل کے خفیہ اداروں کے سربراہان اور قطر کے وزیرِ اعظم کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد تیار کی گئی ہیں۔
ان مذاکرات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ماہ قبل حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ وفد کے ہمراہ مصر پہنچے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے قاہرہ جا رہے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنی افواج کو غزہ سے اس وقت تک واپس نہیں بلائے گا جب تک وہ مکمل طور پر فتح حاصل نہیں کر لیتا۔
دوسری جانب حماس مستقل کہتی رہی ہے کہ یرغمال افراد کو اس وقت تک رہا نہیں کیا جائے گا جب تک غزہ میں جنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو پر امریکہ سمیت دیگر بین الاقوامی اتحادیوں اور ملک کے اندر عوام کی جانب سے مستقل یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے راستے کا تعین واضح کریں۔
نیتن ہاہو کی اتحادی حکومت میں شامل ان کی حامی سخت گیر جماعتیں مسلسل یہ دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ کسی بھی ایسے معاہدے سے قبل حکومت سے الگ ہو جائیں گی جس کے تحت یرغمالوں کی رہائی کے ساتھ حماس بدستور غزہ میں برسرِ اقتدار رہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔