ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے اکثر کھانوں میں گوشت اور چکنائی استعمال کی جاتی ہے جو موٹاپے کی ایک بنیادی وجہ ہے
ہم آپ کو بتائیں گے کہ صحت مند رہنے کے لیے آپ کی روزمرہ کی خوراک میں کون کون سی چیزیں شامل ہونی چاہیں۔
امریکہ میں طبی ماہرین ، محکمہ صحت کے عہدےدار ، سرکاری راہنما اور امریکی خاتون اول مشیل اوباما مل کر صحت مند غذا کے استعمال کی مہم چلا رہے ہیں ۔جس کے تحت ا سکول کے بچوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ورزش کریں اور پھل اور سبزیاں کھائیں۔ صحت مند خوراک اور ورزش خون میں کولسٹرول کو مناسب سطح پر قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
کولسٹرول چکنائی کی ایک قسم ہے، جو خلیوں کو بنانے اور برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے ۔لیکن کولسٹرول کی مختلف اقسام ہیں ۔ ایک قسم کو ایچ ڈی ایل کہا جاتا ہے جو دل کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔ جبکہ دوسرا ایل ڈی ایل ہے جو امراض قلب کا سبب بنتا ہے۔عام طور پر یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ جانوروں کی چربی یا اس چکنائی کا استعمال کم سے کم کیا جائے، جو کمرے کے درجہ حرارت پر جمی رہتی رہتی ہے ۔یہ چکنائی خون میں ایل ڈی ایل کولسٹرول کو بڑھانے کا سبب بنتی ہے ۔
سینٹ مائیکل ہاسپیٹل ٹورنیٹو کینیڈا کے ایک ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ جین کنز کہتے ہیں کہ بھنڈی، بینگن اور لیس دار سبزیاںکولسٹرول کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
ڈاکٹر ڈیوڈ جینکنز ایسے لوگوں پر تحقیق کی جن کی خوراک میں زیادہ تر سبزیاں شامل تھیں۔اپنی اس تحقیق کے ذریعے وہ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا سبزیوں اور پھلوں کا استعمال خون میں کولسٹرول کی سطح میں کمی لاسکتا ہے؟
اس مطالعے میں 350 مردوں اور خواتین نے حصہ لیا۔ ان سب کو کولیسٹرول کم کرنے والی ادویات کی ضرورت تھی ۔ایک گروپ کو ایل ڈی ایل پر مبنی خوراک دی گئی ، جس میں سیب، انگور، اور سٹرابیری کے ساتھ ساتھ بغیر چھنا اناج ، سبزیاں ، خشک میوہ ، زیتون یا کنولا کا تیل ، لوبیا اور سویا بین شامل تھے۔
چھ ماہ بعد تحقیق کے نتائج سے پتا چلا کہ ان کے ایل ڈی ایل کولسٹرول کی سطح میں 13 سے 14 فی صد کمی ہوئی تھی ۔ مگر جنہوں نے کم چکنائی کی غذا کا استعمال کیا ان کے کولسٹرول میں یہ کمی صرف تین فی صد تھی ۔
ڈاکٹر جینکنز کا کہنا ہے یہ مطالعاتی جائزہکولسٹرول کی زیادتی میں مبتلا افراد کے لئے امید کی ایک نئی کرن ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سبزیوں پر مشتمل خوراک کا ایک اور فائدہ یہ بھی سامنے آیا کہ اس مطالعے میں شامل افراد کے بلڈ پریشر میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔
یہ تحقیق امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے میں شائع ہوئی ہے ۔