صوبائی دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جمعرات کو ریکارڈ بارش نے جل تھل ایک کر دیا جس کے بعد شہر میں اب بھی کئی مقامات پر سیلاب کی سی صورتِ حال ہے۔
وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ نے سندھ میں حالیہ بارش کے باعث پیش آنے والے مختلف حادثات میں 80 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ کراچی میں 47 افراد ہلاک ہوئے۔
تیز بارش کے باعث پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہو گیا جب کہ کئی سڑکیں جمعے کے روز بھی تالاب کا منظر پیش کرتی رہیں۔
جمعے کے روز کراچی میں ایک نیوز کانفرنس میں وزیر اعلٰی سندھ نے کہا کہ جمعرات کی بارش نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ برسات کے بعد نالوں کی صفائی کا کام تیز کیا جائے گا۔
وزیر اعلٰی سندھ نے کہا کہ بارشوں سے شہریوں کی املاک کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں چیف سیکرٹری سندھ کو سروے کی ہدایت کر دی ہے، جسے وفاقی حکومت کے ساتھ بھی شیئر کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں پی ای سی ایچ ایس، ڈیفنس، کلفٹن، ناظم آباد، نیو کراچی، گلشن حدید ،گلشن اقبال، گلستان جوہر، لیاقت آباد، نارتھ کراچی، سرجانی ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، شاہ فیصل کالونی، نیا ناظم آباد کے علاوہ ملیر اور لیاری ندی کے قریب آباد کچی بستیاں شامل ہیں۔
کئی علاقوں میں جمعے کے روز تک بارش کا پانی نہیں نکالا جا سکا جس کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد زیادہ متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کر رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اگست کے مہینے میں اب تک 604 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل 1931 اور 1977 میں کراچی میں اتنی زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ بدین، چھور، تھرپارکر، شہید بے نظیر آباد، دادو، ٹھٹھہ اور دیگر علاقوں میں بھی فصلوں کو نقصان پہنچا اور لوگوں کے کچے گھر متاثر ہوئے ہیں۔
کراچی میں چھ جولائی سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے سے اب تک 47، حیدرآباد میں 10، میرپور خاص ڈویژن میں 11، جب کہ صوبے بھر میں مجموعی طور پر 80 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شدید بارشوں سے بہت نقصان ہوا ہے اور یہ ایک قومی ڈیزاسٹر ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وفاقی حکومت بھی اس صورتِ حال میں ہماری مدد کرے گی۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ مون سون کی بارشوں کا ایک نظام ہفتے کے روز مشرقی سندھ میں داخل ہو گا جس سے زیریں سندھ میں مزید بارشوں کا امکان ہے۔
موسلادھار بارش نے شہر کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ کئی زیر زمین راستوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہے۔ ان میں ناظم آباد انڈر پاس، غریب آباد انڈر پاس، کے پی ٹی انڈر پاس اور ڈرگ روڈ پر واقع زیر زمین راستے شامل ہیں۔
سب سے زیادہ متاثرہ سڑکوں میں نیشنل ہائی وے، مہران ہائی وے، یونیورسٹی روڈ، شارع فیصل کے کچھ حصے، ایم ایم عالم روڈ، ایم اے جناح روڈ، مائی کولاچی روڈ، آئی آئی چند ریگر روڈ، کورنگی روڈ، شہید ملت روڈ، کورنگی انڈسٹریل ایریا روڈ اور دیگر سڑکیں شامل ہیں۔
دوسری جانب شہر کے کئی علاقوں میں 24 گھنٹوں کے بعد بھی بجلی بحال نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان علاقوں میں کلفٹن بلاک ٹو، گزری کے بعض علاقے، دہلی کالونی، ہجرت کالونی، کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل ٹاؤن، سرجانی ٹاون، بلدیہ، رئیس امروہی کالونی، گلشن اقبال اور دیگر علاقے شامل ہیں۔
کراچی میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے 'کے الیکٹرک' کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پانی کھڑا ہونے اور نشیبی علاقوں میں نکاسی آب نہ ہونے سے بجلی کی بحالی میں عملے کو دشواری کا سامنا ہے۔
ادھر حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملیر ندی میں ایک بار پھر سیلاب کا خدشہ ہے اور ملحقہ ندیوں میں اس وقت بھی پانی کا بڑا ریلا گزر رہا ہے۔
ملیر ندی اور لیاری ندی میں آباد بستیوں سمیت اردگرد کی آبادیوں میں مزید پانی داخل ہونے کے بھی خدشات ہیں۔
اس سے قبل ملیر کے کئی علاقوں میں پانی آنے کے بعد فوج کی مدد سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔