سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سندھ حکومت کی کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حکومت مکمل طور ناکام ہو چکی ہے۔ صوبے کے عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔
عدالت نے کراچی کے تمام نالے صاف کرنے کی ذمہ داری قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے 'نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی' (این ڈی ایم اے) کے سپرد کر دی ہے جو پہلے سے ہی کراچی کے چند بڑے نالوں کی صفائی پر مامور ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ حکومت کو صوبے کے عوام کا کوئی خیال ہی نہیں۔ بارشوں اور سیلاب کی پیش گوئی کے باوجود بھی پیشگی انتظامات نہیں کیے گئے۔
شہر میں تجاوزات اور نالوں کی صفائی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے این ڈی ایم اے کی جانب سے نالوں کی صفائی پر ریمارکس دیے کہ یہ صوبائی حکومت کی ناکامی ہے کہ وفاق کو آنا پڑا۔
کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں 38 بڑے اور 514 چھوٹے نالے ہیں جن میں سے تین بڑے نالے این ڈی ایم اے صاف کر رہی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ شہر بھر کے نالوں کی صفائی کا کام این ڈی ایم اے ہی کرے۔
دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے نقصِ امن کا خدشہ ہوتا ہے۔
عدالت نے اسے بھی صوبائی حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر میں تجاوزات قائم ہیں۔ پورا کراچی دیہات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہ حال کشمور سے کراچی تک ہر علاقے کا ہے۔ سندھ حکومت مکمل ناکام ہو چکی ہے اور حکمران صرف مزے کر رہے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سندھ ملک میں سب سے زیادہ انارکی والا صوبہ بن چکا ہے جہاں مافیاز کام کر رہے ہیں جب کہ قانون کی عمل داری کہیں نظر نہیں آتی۔
ادھر عدالت نے شہر کے وسط میں واقع کڈنی ہل پارک سے تجاوزات مکمل ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت میں اس سے متعلق مفصل رپورٹ پیش کی جائے۔
'بلدیاتی نظام میں تبدیلیاں اور کمزور ادارے خرابی کی وجہ'
دوران سماعت سپریم کورٹ کے جج جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ پچھلے 40 سال میں کراچی کا برا حال کر دیا گیا ہے۔
شہری اُمور کے ماہر اور 'اربن ریسورس سینٹر' کے ڈائریکٹر محمد یونس اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کراچی کے انفراسٹرکچر کو بہت نقصان پہنچا اور یہاں اداروں کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 1980 میں شہری حکومتوں کا نیا نظام متعارف کرانے کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں میں بعض تبدیلیوں کے ساتھ یہ نافذ رہا جس کے بعد پرویز مشرف کے دور میں اسے یکسر تبدیل کر دیا گیا۔
محمد یونس کے بقول 2008 میں پیپلز پارٹی نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کرا کر اسے دوبارہ تبدیل کر دیا اور یہی سلسلہ 2013 میں دوبارہ ہوا جس کے بعد ایک نیا قانون لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کو جان بوجھ کر اختیارات اور مالی لحاظ سے کمزور رکھا گیا جب کہ یہاں نا اہل افراد کی بھرتی اور وسائل کی کمی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
محمد یونس نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ شہریوں کے پانی، بجلی، نکاسی آب، سڑکوں کی تعمیر، صفائی ستھرائی اور اس طرح کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے جو کہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔
ادھر سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ نالوں کی صفائی کا کام بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ہے۔ یہ کام این ڈی ایم اے، وفاقی یا سندھ حکومت کا نہیں ہے۔ سندھ حکومت مالی مشکلات کے پیشِ نظر بلدیہ عظمیٰ کراچی کی مدد کرتی آئی ہے۔
صوبائی وزیر سعید غنی کے مطابق اس مقصد کے لیے عالمی بینک کے تعاون سے ایک منصوبے "سوئپ" پر بھی عمل درآمد کیا جا رہا ہے جس سے یہ مسئلہ مستقبل میں مستقل طور پر حل ہو جائے گا۔
'کراچی کے لیے مختلف آئینی آپشنز پر غور جاری ہے'
دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت کراچی کے مسائل کے مستقل حل کے لیے کئی آئینی آپشنز پر بھی غور کر رہی ہے جس کی تفصیلات ابھی طے ہونا باقی ہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے گزشتہ سال یہ تجویز پیش کی تھی کہ آئین کے آرٹیکل 149 کے ذریعے کراچی میں وفاقی حکومت کے قوانین کا اطلاق کر کے اسے وفاق کے زیرِ انتظام کیا جائے۔
لیکن وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے غیر سنجیدہ قرار دیا تھا۔