|
اسلام آباد — افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان میں اپنے ایک سرکردہ مذہی عالم کے قتل ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
مقتول مذہبی عالم کی شناخت محمد عمر جان اخندزادہ کے نام سے ہوئی ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق طالبان محمد جان اخندزادہ جمعرات کو پاکستان کے شہر کوئٹہ کی ایک عمارت میں مغرب کی نماز کی امامت کرا رہے تھے کہ اس دوران اسلحہ بردار حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کردی۔
اس حملے کی ذمے داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔
جمعے کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم 'ایکس' (سابق ٹوئٹر) پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عمر جان اخندزادہ حکومت کی علما کی اعلیٰ ترین کمیٹی کے رکن تھے اور قندھار میں ایک 'جہادی' مدرسے میں مدرس بھی رہے تھے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ہم یہ جان کر صدمے میں ہیں کہ ملک کے ایک سرکردہ مذہبی رہنما کو قتل کردیا گیا ہے۔ ان کے بقول "ہم اسلام دشمنوں کی جانب سے مذہبی عالم کے قتل جیسے بھیانک جرم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔"
متعدد افغان ذرائع کے مطابق مقتول مذہبی عالم قندھار میں مقیم طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخندزادہ کے سینئر مشیر تھے۔
SEE ALSO: پاکستانی آرمی چیف کا بیان: کیا افغان سرزمین 'سی پیک' کے خلاف استعمال ہو رہی ہے؟کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں ہزاروں افغان پناہ گزین رہائش پذیر ہیں۔ ماضی میں ان علاقوں میں طالبان سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات پر حملے ہوتے رہے ہیں۔
طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخندزادہ خود بھی پاکستان کے صوبے بلوچستان میں مقیم رہے ہیں اور وہ اگست 2021 میں امریکہ کے افغانستان سے انخلا سے قبل وہاں اس کے خلاف جاری حملوں سے متعلق ہدایات جاری کرتے رہے تھے۔
طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے اندر مختلف شہروں میں طالبان کے مذہبی رہنما قتل ہوچکے ہیں۔
ایک مقامی شدت پسند گروپ اور طالبان کی کٹر حریف داعش خراسان ان حملوں میں سے کئی واقعات کی ذمے داری قبول کرچکی ہے۔