|
پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے الزام لگایا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف پراکسی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آرمی چیف کا یہ بیان افغان طالبان کے خلاف ایک اور چارج شیٹ ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ ظاہر ہوتا ہے۔
منگل کو کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہ نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکا نے حال ہی میں بشام میں چینی انجینئرز کے قافلے پر حملے اور نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کی بھی مذمت کی۔ بشام حملے میں پانچ چینی انجینئرز جان کی بازی ہار گئے تھے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان مبینہ طور پر افغانستان میں چھپے ہوئے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان میں دہشت گردی کا ذمے دار سمجھتا ہے۔ پاکستان کا یہ گلہ رہا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی سے گریز کر رہے ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے آرمی چیف کے بیان پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن ماضی میں افغان طالبان اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
افغان طالبان کا مؤقف رہا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں ہونے والی دہشت گردی کا ذمے دار افغانستان کو ٹھہرانے سے گریز کرے۔
ٹی ٹی پی نے چینی انجینئرز پر ہونے والے خودکش حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ لیکن مارچ میں ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کالعدم تنظیم نے پاکستان بھر میں 65 حملوں کی ذمے داری قبول کی۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری شدت پسندی کے واقعات کے بارے میں تو وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن پاکستان میں چینی انجینئرز پر داسو ڈیم اور بشام میں ہونے والے دونوں خودکش حملوں میں ٹی ٹی پی ملوث تھی۔
واضح رہے کہ جولائی 2021 میں داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے نو چینی انجینئرز سمیت 13 افراد ایک حملے میں مارے گئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں بیٹھی ضرور ہے تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انھیں افغان طالبان کنٹرول کر رہے ہیں۔
زاہد حسین کے مطابق پاکستان کی بارہا درخواستوں کے باوجود افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کاررروائی نہیں کی۔ کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے خلاف ہو سکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی مختلف گروہوں کا مجموعہ ہے اور اس میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ کارروائیوں پر سیخ پا ہیں۔ ان تنظیموں میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ قابلِ ذکر ہے اور انہوں نے پاکستان میں پہلے بھی اس طرز کی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔
'الزامات میں کچھ نیا نہیں ہے'
کابل میں مقیم سینئر تجزیہ کار عبدالوحید وحید کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف کی جانب سے عائد کردہ الزامات میں کچھ نیا نہیں ہے بلکہ اس قسم کے الزامات وقتاً فوقتاً لگائے جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی کارروائی کو افغانستان کے ساتھ جوڑنا مناسب نہیں ہے۔
اُں کے بقول اس نوعیت کے الزامات سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید خراب ہوں گے۔
ان کے مطابق پاکستان کی جانب سے پے در پے سخت بیانات اور الزامات کو وہ مستقبل میں کسی بڑی کارروائی کے لیے ماحول بنائے جانے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر عبداللہ خان کہتے ہیں کہ دہشت گرد گروپ ایسے حملوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان مسلح تصادم چاہتے ہیں۔
اُن کے بقول گزشتہ ماہ افغان سرحد کے قریب پاکستانی فوج کے کیمپ پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان نے افغانستان کے اندر فضائی کارروائی کی تھی جس کے بعد سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔
عبداللہ خان کے مطابق حال ہی میں گوادر میں سیکیورٹی کمپلیکس، تربت میں نیول بیس پر حملہ، میر علی میں آرمی کیمپ اور پھر شانگلہ میں چینی انجینئرز کو نشانہ بنانا ہائی پروفائل حملوں میں شمار ہوتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کو خطے میں کشیدگی بڑھانے سے گریز کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر معاملات حل کرنے چاہئیں۔
فورم