پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے جج جسٹس شاہد کریم کا کہنا ہے کہ ہم ہائی کورٹ کے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔
خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ آج (جمعرات) سنانا تھا۔ تاہم، اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ روز وزارتِ داخلہ اور پرویز مشرف کے وکیل کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جمعرات کو خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت کی تو اس موقع پر وزارتِ داخلہ کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے جنہیں جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ ہائی کورٹ نے آپ کو پانچ دسمبر تک پراسیکیوشن تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم اس کے بعد آپ کو مزید وقت نہیں دیں گے۔
جسٹس وقار نے کہا کہ ہم پانچ دسمبر کے بعد مزید وقت نہیں دیں گے اور روزانہ کی بنیاد پر مقدمے کی سماعت کریں گے۔ پرویز مشرف اگلی سماعت سے قبل جب چاہیں آ کر بیان ریکارڈ کرا سکتے ہیں۔
SEE ALSO: سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا گیابینچ کے سربراہ نے مزید کہا کہ اگلی سماعت تک بیان ریکارڈ کرانے کا موقع دے رہے ہیں، جس کے بعد کوئی درخواست قبول نہیں کی جائے گی۔
پرویز مشرف کے سرکاری وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے بریت کی درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر جسٹس وقار احمد نے کہا کہ آپ نے ہمارے احکامات نہیں پڑھے۔ ہم ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔
عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت پانچ دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ پانچ دسمبر کو پراسیکیوشن ٹیم پوری تیاری کے ساتھ پیش ہو اور سرکاری وکیل اسی روز دلائل مکمل کریں۔
عدالت نے قرار دیا کہ پانچ دسمبر کے بعد کسی بھی درخواست پر التواء نہیں دیا جائے گا اور پرویز مشرف پانچ دسمبر سے قبل کسی بھی دن اپنا بیان ریکارڈ کرا سکتے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں بھی سماعت
پرویز مشرف کا غداری کیس میں فیصلہ رکوانے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں بھی سماعت ہوئی، جس کے دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق کو کہا کہ آپ کو تو ریلیف مل چکا ہے، جس پر اُن کا کہنا تھا کہ وہ ریلیف تو وفاقی حکومت کو ملا ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موؑکل کا ٹرائل کرنے والی خصوصی عدالت کے قیام کا نوٹی فکیشن ہی قانون کے مطابق نہیں ہے۔ عدالت بنانے کا اختیار حکومت کو ہے جو کابینہ کی منظوری کے بعد ہوتا ہے جب کہ پرویز مشرف کے معاملے میں اس اصول کو بھی نہیں اپنایا گیا۔
اظہر صدیق نے کہا کہ پرویز مشرف کا ٹرائل غیر موجودگی میں ہوا، جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعد آپ لاہور ہائی کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ پرویز مشرف تو اسلام آباد کا رہائشی ہے۔
جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل چھ کے تحت یہ غداری کا کیس کیسے بنتا ہے؟ عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل کو جواب داخل کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت تین دسمبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔