پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر روہڑی میں مبینہ طور پر شادی سے انکار پر 18 سالہ ہندو لڑکی پوجا کماری کو قتل کر دیا گیا ہے۔ تین ملزمان نے مقتولہ کے گھر میں گھس کر اسے اغوا کرنے کی کوشش کی، تاہم مزاحمت پر اسے قتل کر دیا۔
روہڑی کے تھانہ پٹنی کی حدود میں پیش آنے والے اس اندوہناک واقعے میں پولیس کے مطابق واحد بخش لاشاری نامی ملزم نے پوجا کماری پر فائرنگ کی جس سے وہ موقع پر ہلاک ہو گئی جس کے بعد ملزمان فرار ہو گئے۔
پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے واقع میں ملوث مرکزی ملزم واحد بخش لاشاری کو گرفتار کرلیا اور آلہ قتل بھی برآمد کرکے مقدمہ درج کرلیا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم نے پولیس کے سامنے اعتراف جرم کیا ہے جسے اب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے میں فرار ہونے والے دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
پولیس حکام نے بتایا کہ واحد بخش لاشاری مقتولہ کے علاقے ہی میں رہتا تھا اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پوجا نے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ واقعے کے بعد اہلِ خانہ نے قومی شاہراہ بلاک کردی، تاہم پولیس کی جانب سے انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کے بعد سڑک ٹریفک کے لیے کھول دی گئی۔
پوجا کماری کے چچا سکندر اوڈ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی بھتیجی چھ بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور والد اس سے بہت پیار کرتے تھے۔
اُن کے بقول پوجا کو واحد بخش لاشاری پہلے بھی ہراساں کرتا تھا، اسے گھر چھوڑ کر شادی کرنے پر اکساتا تھا جس پر اس کی شکایت اس کے گھر والوں اور گاؤں کے وڈیرے سے بھی کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی ملزم باز نہیں آیا۔پوجا کے چچا نے الزام عائد کیا کہ پولیس ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ اہلِ خانہ کا مطالبہ تھا کہ پولیس واقعے کا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت درج کرے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
SEE ALSO: جبری تبدیلیٴ مذہب کے تدارک کا مجوزہ قانون، پارلیمانی کمیٹی نے معاملہ ختم کیوں کیا؟وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے انسانی حقوق ویر جی کولہی کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا ہے جب کہ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اہلِ خانہ کی مرضی کے مطابق واقعے کی ایف آئی آر درج کی ہے۔
ویر کولہی کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ناکافی اقدامات کے باعث ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
ویر کولہی نے یقین دلایا کہ واقعے میں ملوث ملزمان چاہے کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہوں، انہیں قرار واقعی سزا دلانے کے لیےحکومت اپنا کردار ادا کرے گی۔
ادھر آل پاکستان ہندو پنچایت نے بھی واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور قتل میں ملوث تمام ملزمان کو قانون کی گرفت میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جنرل سیکرٹری پاکستان ہندو پنچایت روی ڈوانی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں مذہب کی تبدیلی کے لیے ہندو لڑکیوں کے اغواٰٗ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ جس میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ملک میں ہر سال ایک ہزار کے قریب کم عمر لڑکیوں کو جبری مذہب کی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں پنجاب اور سندھ کے بعض علاقے سب سے نمایاں ہیں۔
تاہم صوبائی اور وفاقی حکومت جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات کو حقائق کے منافی قرار دیتی آئی ہیں۔