پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان کے بارے میں ایسے جملوں کا استعمال کیا ہے جن کے بارے میں قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے لیے قانونی مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔
وزیرِ اعظم اپنے جلسوں کے دوران منحرف ہونے والے ارکانِ اسمبلی کے لیے 'ضمیر فروش' جیسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ سوات میں منعقدہ ایک جلسے کے دوران انہوں نے ایسے ارکان پر کرپشن کے الزامات لگانے کے علاوہ ان کے بچوں کے بارے میں کہا تھا انہیں اسکولوں میں اپنے والدین کی وجہ سے تضحیک آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا جب کہ ان کے بچوں کی شادیوں کے لیے رشتے بھی نہیں ملیں گے۔
حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کے بیانات نفرت انگیز ہیں اور ان کی اس طرح کی تقریریں کچھ حلقوں کو تشدد پر ابھار رہی ہیں۔
پاکستان میں نفرت انگیز الفاظ استعمال کرنےاور شہریوں کو تشدد پر ابھارنے کے خلاف کئی قوانین موجود ہیں۔ اگرچہ ان قوانین کی فہرست طویل ہے لیکن چند قوانین براہِ راست ساکھ کو نقصان پہچانے اور غیر پارلیمارنی الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہیں۔
ماہرِ قانون عثمان وڑائچ کے مطابق جو قوانین کسی بھی فرد کو پر تشدد تقاریر سے روکتے ہیں وہی قوانین وزیر اعظم پر بھی لاگو ہوتے ہیں جن میں آئینِ پاکستان کی دفعہ 427 اور 506 قابلِ ذکر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عثمان وڑائچ نے بتایا کہ کسی شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچانا جس میں اس کے خلاف تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال یا کردار کشی کرنا شامل ہے، دفعہ 427 کے زمرے میں آتا ہےجو کہ ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ان کے بقول آرٹیکل 427 کی خلاف ورزی کے مرتکب شخص کو چھ ماہ قید اور جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ بھی ہو سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پری وینشن آف الیکڑانک کرائمز ایکٹ ( پیکا) قوانین ا گرچہ بہت سی وجوہات کی بنا پر متنازع ہو چکے ہیں لیکن اس کے تحت ایسے قوانین مزید سخت کردیے گئے ہیں جس کے بعد کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سزا سات سال تک ہو سکتی ہے جب کہ جرمانہ 50 لاکھ روپے تک کیا جا سکتا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اتوار کو مالا کنڈ کی تحصیل درگئی میں جلسے سےخطاب کے دوران اپنی جماعت کے منحرف اراکین کو کہا تھا کہ ضمیر فروش کا ٹیگ آپ پر ہمیشہ کے لیے لگ جائے گا اور آپ کے بچوں سے کوئی شادیاں نہیں کرے گا۔
بعدازاں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے کئی کارکنوں کو اپنی پارٹی سے انحراف کرنے والے ارکانِ قومی اسمبلی کے گھروں کے باہر احتجاج کرتے بھی دیکھا گیا تھا۔
دفعہ 427 کے تحت کارروائی کا طریقہ کار کیا ہے؟
ماہرِ قانون عثمان وڑائچ کے مطابق آرٹیکل 427 کے تحت مقدمات کسی کو ذاتی نقصان یا ساکھ کو نقصان پہنچانے کے تحت ہی سنے جا سکتے ہیں اور ان مقدمات کی پیروی کرنا انفرادی عمل ہے۔ البتہ پیکا قوانین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ کوئی تیسرا فرد بھی کسی ادارے یا شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
عثمان وڑائچ کہتے ہیں کسی کو یہ کہنا کہ فلاں چور ہے اور ان کے بچوں سے شادی کون کرے گا یہ ایسے جملے ہیں جو دھمکانے کے دائرے میں آتے ہیں۔ ان کے بقول آرٹیکل 427 ہر شخص پر لاگو ہوتا ہے اور وزیرِ اعظم بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر سینیٹر سید علی ظفر کہتے ہیں کہ کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا یا کسی کو تشدد پر اکسانا ایسے جرائم ہیں جو پاکستان پینل کوڈ کی کئی دفعات کے دائرے میں آتے ہیں۔ ان کے بقول یہ فوجداری مقدمات پیکا قوانین کے آنے کے بعد مزید سخت ہو چکے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا وزیر اعظم کی حالیہ تقاریر اس زمرے میں آتی ہیں؟ بیرسٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ 'سیاسی بیانات اور کسی کو جرم پر اکسانے میں فرق ہے‘۔
ان کے بقول وزیراعظم عمران خان اپنے بیانات میں جب یہ کہتے ہیں کہ کرپشن کرنے والوں کے بچوں کو کوئی اسکول میں داخلہ بھی نہیں دے گا تو وہ دراصل ایک نصیحت کر رہے ہیں اور ایک سماجی برائی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔اس لیے سوشل بائیکاٹ کرنے کے بارے میں بات کرنے کا ساکھ خراب کرنے جیسے جرم سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور ان دونوں معاملات کو الگ الگ رکھنا چاہیے۔