ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد 'گشتِ ارشاد' نامی اس فورس پر مقامی اور عالمی سطح پر تنقید کی جارہی ہے۔جب کہ امریکہ نے بھی حجاب اور لباس کی دیگر پابندیاں نافذ کرنے والی اس فورس اور اس کے سینئر حکام پر پابندی عائد کردی ہے۔
ایران میں مہسا امینی کی گشت ارشاد کی تحویل میں ہلاکت کے بعد ہونے والے احتجاج میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ کئی شہروں میں احتجاج جاری ہے۔
امریکہ کے ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے فورن ایسٹ کنٹرول آفس نے ایران کے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی کی وزارت کے حکام، فوجی افسران، رضا کار فوج بسیج سے تعلق رکھنے والے حکام اور گشتِ ارشاد کے عہدے دارن پر پابندی عائدکرتے ہوئے کہا کہ یہ فورس پرامن احتجاج کرنے والے شہریوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کے رضا کار اور تنظیمیں ایرانی حکومت کی پالیسیوں اور گشتِ ارشاد کی خواتین کے خلاف کارروائیوں پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایران کے اندر بھی اس فورس کے طرزِ عمل اور تشدد کے استعمال پر آوازیں اٹھتی رہی ہیں اور اسے ختم کرنے کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے ہیں لیکن گزشتہ کئی دہائیوں میں یہ فورس مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے۔
اس فورس کی بڑھتی ہوئی قوت کی وجہ کیا ہے؟ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر دباؤ کے باوجود ایران میں اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟اور یہ فورس اتنی طاقت ور کیوں ہے؟ اس فورس کے کام کرنے کے طریقۂ کار اور ایران میں اس فورس کے قیام کی تاریخ کے بارے میں جانے بغیر ان سوالوں کا جواب حاصل نہیں ہوسکتا۔
گشتِ ارشاد کیسے کام کرتی ہے؟
یہ اخلاقی پولیس ایران میں قانون نافذ کرنے والے اداروں (لا انفورسمنٹ فورسز) میں شامل ہے۔ تاہم اس کی خاص ذمے داری ایران کے مذہبی حکام کے بتائے گئے مذہبی اخلاق و آداب پر عمل درآمد کرانا ہے۔
عام طور پراس کے یونٹس اپنی گاڑیوں میں ٹولیوں کی صورت میں گشت کرتے ہیں جن میں مرد اور خواتین اہلکار دونوں ہی شامل ہوتے ہیں۔کسی بھی ’نامناسب‘ رویے یا لباس کی نگرانی کرنے کے لیے ان اہلکاروں کی ٹولیاں مختلف عوامی مقامات اور مصروف علاقوں میں پھیل جاتی ہیں۔
SEE ALSO: ایران میں پرتشدد مظاہروں کے بعد کریک ڈاؤن، خاتون اور بچے سمیت 9 افراد ہلاکجو لوگ اپنے کسی طرزِ عمل یا گشت ارشاد کی نظر میں نامناسب لباس کی وجہ سے اس کے اہلکاروں کی گرفت میں آتے ہیں انہیں تعلیم و تربیت کے لیے بنائے گئے کسی ’اصلاحی مرکز‘ یا قریبی پولیس اسٹیشن لے جایا جاتا ہے۔ یہاں حراست میں لیے گئے افراد کو لباس کے آداب اور اخلاق پر وعظ و نصیحت کی جاتی ہے جس کے بعد خواتین کو ان کے مرد اہل خانہ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ایران میں کسی نامناسب قرار دیے گئے رویے یا لباس کی وجہ سے گرفتار ہونے والے مرد و خواتین پر جرمانہ بھی کیا جاتا ہے جو بعض مرتبہ 25 ڈالر تک بھی ہوسکتا ہے۔
گشتِ ارشاد کے لیے اکثر و بیش تر بسیج سے اہل کار لیے جاتے ہیں اور یہ ان کی مدد بھی کرتی ہے۔ بسیج ایک نیم فوجی رضا کار فورس ہے جسے 1980 کی دہائی میں ہونے والی ایران عراق جنگ کے دوران منظم کیا گیا تھا۔
بسیج کو ایران کی اسٹیبلشمنٹ کی سب سے زیادہ وفادار اور ملک کے طول و عرض میں اپنے پھیلاؤ کی وجہ سے سب سے بڑی قوت سمجھا جاتا ہے۔
ایران کی ہر یونیورسٹی میں بسیج کے اہل کار ہوتے ہیں اور طلبہ کے لباس اور رویوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایران میں یونیورسٹی سطح پرمخلوط نظامِ ہ تعلیم ہے اور عام طور پر لڑکے لڑکیوں کو یونیورسٹی میں آکر ہی میل جول کا موقع ملتا ہے۔
اپنے وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے بسیج ایران میں اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں کو کچلنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گشتِ ارشاد کے بیسج سے قریبی تعلق کو اس کی قوت کا بنیادی سبب قرار دیا جاتا ہے۔
لباس پر نگرانی کی ضرورت کیوں؟
ایران میں سن 1979 میں آنے والی اسلامی انقلاب سے وجود میں آنے والی علما کی مذہبی حکوت کو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اپنے بنائے ہوئے قوانین کے نفاذ میں مزاحمت کا سامنا ہے۔
ایران کے شرعی قوانین کے مطابق خواتین پر سر کے بال پوری طرح ڈھانپنا اور ایسا ڈھیلا ڈھالا لباس پہننا لازم ہے جس میں ان کی جسمانی ہیئت ظاہر نہ ہو۔
لیکن مختف عمر اور پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین چست لباس اور شوخ رنگوں کے اسکارف بھی پہنتی ہیں جس میں ان کے سر کے بال ظاہر ہورہے ہوتے ہیں۔
SEE ALSO: پولیس حراست میں خاتون کی ہلاکت: ایران میں احتجاج کیا رُخ اختیار کرے گا؟ایران میں حجاب کے نفاذ اور ’نامناسب‘ اور مناسب لباس کی یہ بحث اور کشمکش انقلاب کے دور ہی سے چلی آرہی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی قیادت کرنے والے پہلے سپریم لیڈر آیت اللہ روح اللہ خمینی نے تو خواتین کے حجاب کو انقلاب کا ستون قرار دیا تھا۔ حجاب سے متعلق ایران کی مذہبی حکومت کی سخت پالیسی کا سبب اس معاملے کا سیاسی پس منظر ہے۔
سن 1979 میں انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی مذہبی حکومت کے قیام کے بعد ایران میں خواتین کے ملازمت اور ڈرائیونگ کرنے پر پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ نہ ہی ان کی نقل و حرکت پر کوئی قدغن تھی۔
لیکن جب آیت اللہ خمینی نے انقلاب کے بعد سرکاری ملازم خواتین کو ’چادر‘ اوڑھنے کے احکامات جاری کیے تو اس وقت بھی ہزاروں خواتین نے اس کے خلاف سروں سے حجاب اتار کر تہران میں احتجاج کیا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ایران میں خواتین کا حجاب کسی سیاسی تنازع کا سبب اور احتجاج کی علامت بنا ہو۔ اس سے قبل ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے 1936 میں ’کشفِ حجاب‘ کے نام سے ایک فرمان جاری کیا تھا جس کے تحت خواتین کے چادر اور اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ شاہ رضا پہلوی کا یہ فرمان ایران کے معاشرے کو جدت اور مغربی طرز کے مطابق ڈھالنے کے لیے کیے گئے ان کے اقدامات کا حصہ تھا۔
لیکن ایران میں مذہبی اور روایتی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس شاہی فرمان پر شدید ردِعمل دیا۔ پابندی کے باجود کئی خواتین حجاب اوڑھتی رہیں اور ان کے خلاف بھی حکومت کارروائی کرتی رہی۔
تاہم 1941 میں سوویت یونین اور برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ میں شاہِ ایران کی جرمنی کی حمایت کے خدشے کے پیشِ نظر ایران پر حملہ کرکے انہیں معزول کردیا۔ ان کی جگہ شاہِ ایران کے بیٹے محمد رضا شاہ پہلوی شاہِ ایران بن گئے۔
محمد رضا شاہ پہلوی کے حکومت میں آںے کے بعد روایت پسند حلقوں نے حجاب کو لازم قرار دلانے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ شاہ نے اپنے والد کی طرز پر مغربی رہن سہن کے فروغ کی پالیسی جاری رکھی۔
جب 1970 کی دہائی میں شاہِ ایران کے خلاف احتجاجی لہر کا آغاز ہوا تو بائیں بازوں کی جماعتوں کے ساتھ اس میں مذہبی حلقے بھی شریک ہوگئے۔ رفتہ رفتہ شاہ ایران کے خلاف اٹھنے والے اس تحریک میں مذہبی طبقے کا اثر و نفوذ بڑھتا گیا اور انہوں ںے شاہ کی ’ماڈرنائزیشن‘ کی پالیسی کے مقابلے میں حجاب کو سیاسی علامت بنا دیا۔
ایہی وجہ تھی کہ جب انقلاب کے بعد حجاب کی مخالفت ہوئی تو آیت اللہ خمینی نے چادر یا حجاب کو ’پرچمِ انقلاب‘ قرار دیا تاہم انہوں نے حکومتی اہل کاروں کو حجاب نہ کرنے والی خواتین کے ساتھ درشت یا نامناسب رویہ رکھنے سے روک دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پابندیاں بڑھنے لگیں
وقت کے ساتھ ساتھ خواتین پر لباس اور سر ڈھانپنے سے متعلق پابندیوں کا نفاذشروع ہوا اور اس میں سختی بھی آنے لگی۔ ابتدا میں حجاب کے لیے آیت اللہ خمینی کی تاکید اور تائید کو بنیاد بنا کر ان کے حامیوں نے حجاب نہ کرنے والی خواتین کو زد و کوب کرنا شروع کیا۔
حکومت نے خواتین پر حجاب کی پابندی اور لباس سے متعلق اپنے ضوابط لاگو کرنے کے لیے سرکلرز جاری کرنا شروع کردیے اور 1983 میں اس سلسلے میں باقاعدہ قانون بنا دیا گیا۔ اس قانون کے تحت حجاب نہ پہننے پر 74 کوڑوں کی سزا مقرر کردی گئی۔
قانون سازی اور احکامات جاری کرنے کے بعد بھی ان کی مکمل تعمیل نہیں کرائی جاسکی تو اس کے لیے باقاعدہ اخلاقی پولیس بنا دی گئی۔ 1997 سے 2005 تک ایران کے صدر رہنے والے اصلاح پسند سیاست دان محمد خاتمی کے دور میں عوامی سطح پر لباس پر پابندیوں کی نگرانی میں نرمی آگئی۔ لیکن ان کے دورِ صدارت کے اختتام پر 2005 میں انتہائی بااختیار تصور ہونے والی سپریم کونسل آف کلچرل ریولوشن یا شورایٔ عالی انقلابِ فرہنگی نے ’حیا پر مبنی کلچر کے فروغ کے لیے حکمت عملی‘ کے عنوان سے ایک قرار داد منظور کی۔
آیت اللہ خمینی نے یہ کونسل 1984 میں قائم کی تھی۔ اس کونسل کے ارکان کا انتخاب براہ راست ایران کا سپریم لیڈر کرتا ہے۔ کونسل کا مقصد ایران میں تعلیم اور ثقافت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اگرچہ اس کونسل کا چیئرمین ایران کا منتخب صدر ہوتا ہے لیکن یہ براہ راست سپریم لیڈر کو جواب دہ ہے اور اس کے فیصلوں کو سوائے سپریم لیڈر کے کوئی اور تبدیل یا مسترد نہیں کرسکتا۔
محمد خاتمی کے بعد قدامت پسند تصور ہونے والے محمود احمدی نژاد ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ احمدی نژاد نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی حجاب اور اخلاقی ضوابط کے سختی سے نفاذ کے اعلانات شروع کردیے تھے۔
منتخب ہونے کے بعد احمدی نژاد نے اخلاقی پولیس کو مزید مضبوط کیا اور اسے پہلی مرتبہ انہیں کے دور میں ’گشتِ ارشاد‘ یا رہنمائی کرنے والی پولیس کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد اس فورس میں شامل افراد کی تعداد بھی بڑھا دی گئی اور گلیوں بازاروں میں اس کے اہل کاروں نے نگرانی میں اضافہ کردیا۔
سخت رویہ اور تشدد پر تنقید
احمدی نژاد کے دور میں اس پولیس کی کارروائیوں میں تیزی اور سختی بڑھنے لگی۔ اس فورس کے اہل کاروں کی جانب سے ’نامناسب حجاب‘ یا لباس کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ سخت برتاؤ اور زد و کوب کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہونے لگے۔
یہی وجہ تھی کہ 2009 میں ایران کی انتخابی مہم کے دوران اصلاح پسند امیدواروں نے اس فورس کی ضرورت اور اس کے رویے پر سوال اٹھانا شروع کیے۔ تاہم اس فورس کی مخالفت اور مسلسل شکایات اور تشدد کی ویڈیوز سامنے آنے کے باجود اسے ختم کرنے یا اس کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
گزشتہ برس اصلاح پسند صدر حسن روحانی کے مقابلے میں قدامت پسند ابراہیم رئیسی کی کامیابی کے بعد گشتِ ارشاد کی کارروائیوں میں ایک بار پھر تیزی دیکھنے میں آئی تاہم اس کے خلاف شدید ردِ عمل بھی سامنے آتا رہا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق گزشتہ برس حجاب کے بغیر گلیوں اور سڑکوں پر نکلنے والی خواتین کی ویڈیوز سامنے آئی تھیں۔ تاہم دسمبر میں پولیس نے اعلان کیا تھا کہ حجاب کی خلاف وزری کرنے والی خواتین کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
اس سے قبل نومبر 2019میں ابتر معاشی حالات کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران ایک خاتون کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس نے تہران کی انقلاب اسٹریٹ میں سر سے حجاب اتار کر ہوا میں لہرایا تھا۔ تہران کے پراسیکویٹر عباس جعفری دولت آبادی کے مطابق اس خاتون کو 24 ماہ قید کی سزا دی گئی تھی۔
رواں ماہ مہسا امینی کی حراست میں ہلاکت سے قبل جولائی میں بھی گشتِ ارشاد کے کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔ کئی خواتین کی احتجاج کے دوران حجاب اتارنے کی ویڈیوز بھی سامنے آئی تھیں۔
اس سے قبل 2018 میں ہونے والے ایسے ہی کریک ڈاؤں کے خلاف ایران میں شدید تنقید کی گئی تھی۔ اس دوارن ایران کے اس وقت کے صدر حسن روحانی نے گشتِ ارشاد کا نام لیے بغیر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اچھائی پر عمل کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا۔
سن 2012 میں ایرانی ڈائریکٹر سعید سہیلی نے ’گشتِ ارشاد ‘ کے نام سے کامیڈی فلم بھی بنائی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح تین بے روزگار اس پولیس کا روپ دھار کر لوگوں سے رقم ہتھیاتے ہیں۔ 2017 میں اس فلم کا سیکوئل بھی بنایا گیا تھا۔
SEE ALSO: ایران :اخلاقی پولیس کی حراست میں خاتون کی ہلاکت پر سوشل میڈیا پر احتجاجحالیہ احتجاج کے بعد جہاں عالمی سطح پر ایران کی اخلاقی پولیس کے خلاف ردعمل سامنے آیا ہے وہیں ایران کے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی جانب سے بھی اس کی مخالفت میں شدت آگئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایرانی نیوز ایجنسی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران کے رکن پارلیمنٹ جلال راشدی کوچی نے گشتِ ارشاد کے قیام کو غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ایران کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
ایک اور قانون ساز معین الدین سعیدی کے مطابق اس فورس کو بہت پہلے ختم کردینا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ ممتاز مذہبی عالم آیت اللہ اسد اللہ بیات زنجانی نے بھی گشتِ ارشاد کے اقدامات اور طرزِ عمل کو بلا جواز قرار دیا ہے۔ ایران میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکار افراد اور تنظمیں بھی اس فورس کی کارروائیوں کو شہری حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی آئی ہیں۔
مستقبل میں کیا ہوگا؟
گشتِ ارشاد فورس اپنے خلاف تنقید اور الزامات کی تردید کرتی رہی ہے اور اسے پراپیگنڈا قرار دیتی آئی ہے تاہم مقامی و عالمی سطح پر تنقید کے باوجود اس فورس کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے بظاہر کئی اسباب ہیں۔
امریکہ کی جانب سے گشتِ ارشاد پر پابندی کے لیے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فورسز بنیادی طور پر ایران میں حکومت کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی تحریک پر کڑی نگاہ رکھتی ہیں اور انہیں دبانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی احتجاجی تحریک سے قبل 1999 میں اصلاح پسند اخبار کی بندش کے خلاف طلبہ کا احتجاج ہو یا 2009 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اٹھنے والی ’سبز انقلاب‘ کی تحریک۔ یہ فورسز انہیں دبانے میں کام یاب رہی ہیں۔ ان احتجاجی تحریکوں کے دوران سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔
اسی طرح یہ فورسز 2019 اور 2020 میں معاشی ابتری کے خلاف ہونے والے احتجاج کو قابو کرنے میں کامیاب رہی ہیں جب کہ حالیہ مظاہروں کے خلاف بھی طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔اپنے اسی کردار کی وجہ سے بسیج ہو یا گشتِ ارشاد انھیں حاصل اختیارات میں کمی کا فوری امکان نظر نہیں آتا ہے۔