رسائی کے لنکس

پولیس حراست میں خاتون کی ہلاکت: ایران میں احتجاج کیا رُخ اختیار کرے گا؟


مہسا امینی۔
مہسا امینی۔

اخلاقی پولیس کی تحویل میں خاتون کی ہلاکت کے بعد ایران میں جاری احتجاج کے دوران پانچ مظاہرین کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کرد علاقوں میں ہونے والے احتجاج سے کردوں اور ایرانی اسٹیبلشمنٹ کےد رمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

ایران کے دارالحکومت تہران میں 22 سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی جانب سے گرفتاری کے دوران کیے گئے مبینہ تشدد کے باعث موت کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ تہران سمیت ایران کے صوبے کردستان میں تین روز سے یہ احتجاج جاری ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز 'نے ہینگا ہیومن رائٹس نامی انسانی حقوق کی تنظیم کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ پولیس کی کرد صوبے میں مہسا امینی کے آبائی شہر سقز میں مظاہرین پر فائرنگ میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اسی طرح دیواندرہ شہر میں دو افراد ’براہِ راست‘ فائرنگ سے ہلاک ہوئے جب کہ ایک اور کرد علاقے دہغلان میں بھی احتجاج کرنے والے ایک شخص کی ہلاکت ہوئی ہے۔ البتہ 'رائٹرز' نے آزادانہ طور پر ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی ہے جب کہ ایرانی حکام نے بھی ان اموات کی تصدیق نہیں کی۔

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'ارنا' کے مطابق سات صوبوں کے متعدد شہروں میں محدود پیمانے پر احتجاج ہوا جسے پولیس نے منتشر کردیا ہے۔

احتجاج شروع کب ہوا؟

گزشتہ ہفتے کے دوران تہران میں ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں 22 سالہ طالبہ مہسا امینی کو گرفتار کرنے کی مبینہ ویڈیو سامنے آئی تھی۔ بعدازاں کوما کی حالت میں جانے والی مہسا امینی کی جمعے کو موت واقع ہوگئی تھی۔ مہسا امینی کوحراست میں لینے کے دوران مبینہ طور پر پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اس واقعے کی مبینہ ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں تاہم ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر اس کا شدید ردعمل سامنے آیا اور ٹوئٹر پر فارسی زبان میں ان کے نام سے ہیش ٹیگ کے تحت 20 لاکھ سے زائد ٹوئٹس کیے جاچکے ہیں۔

سن 1979 کے بعد ایران میں خواتین کے لیے سر ڈھانپنے اور ڈھیلے ڈھالے لباس پہننے جیسی پاپندیوں سمیت دیگر مذہبی قوانین پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے اخلاقی پولیس قائم کی گئی تھی۔

پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ مہسا امینی حراست میں لی گئی دیگر خواتین کے ساتھ موجود تھیں اور پولیس کی کارروائی کے دوران اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے اچانک ان کی طبعیت بگڑ گئی تھی۔

تاہم مہسا امینی کے والد بارہا اپنی بیٹی کو صحت سے متعلق کوئی شکایت ہونے کی تردید کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہسا کی ٹانگوں پر زخموں کے نشانات ہیں۔ وہ پولیس کو مہسا کی موت کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔

پولیس سربراہ کی معطلی؟

برطانوی خبار گارڈین کی خبر کے مطابق ایران میں تین دن سے جاری احتجاج کےبعد تہران میں اخلاقی پولیس کے سربراہ کرنل احمد میرزائی کو معطل کردیا گیا ہے۔

گارڈین کے مطابق متعدد ایرانی خبر رساں اداروں نے کرنل میرزائی کی مہسا امینی کی ہلاکت کی وجہ سے معطلی کی خبر جاری کی ہے۔ تہران پولیس نے کرنل میرزائی کی معطلی یا برطرفی کی اطلاعات کی تردید کی ہے۔

برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ مہسا امینی کی سی ٹی اسکین کی رپورٹ کے مطابق ان کے سر کی ہڈی میں فریکچر ہوا اور ان کے دماغ کے بعض حصوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بظاہر اس رپورٹ سے تصدیق ہوتی ہے کہ ان کے سر پر ضرب لگائی گئی ہے۔

طبی رپورٹس سے اخلاقی پولیس کے ساتھ ساتھ تہران پولیس کے ان دعوؤں کی بھی نفی ہوئی ہے جس میں انہوں نےبعض ویڈیوز کی بنیاد پر یہ کہا تھا کہ مہسا کی موت دل کے مرض یا مرگی کی وجہ سے ہوئی تھی۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے مہسا امینی کے اہلِ خانہ سے فون پر بات کرتے ہوئے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس ایران کے صدر منتخب ہونے والے ابراہیم رئیسی کو سخت گیر نظریات کا حامل سمجھا جاتا ہے اور ان کے اقتدار میں آنے کے بعد حجاب کی پابندی پر عمل درآمد میں سختی آئی ہے۔

سب سے زیادہ احتجاج کہاں ہورہا ہے؟

ایران کی اخلاقی پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والی مہسا امینی کرد تھیں۔ اس ہلاکت پر سب سے زیادہ شدت کے ساتھ احتجاج بھی ایران میں کرد آبادی والے علاقوں میں ہورہا ہے۔ ایران میں کردوں کی آبادی اسی لاکھ سے ایک کروڑ تک ہے۔

یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس نامی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق ایران میں 1979 میں آنے والے انقلاب سے قبل اور بعد میں کرد آبادی کو ریاستی سطح پر امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے اور ماضی میں بھی یہاں اس پر احتجاج ہوتے رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کرد تنظیم ہینگا کے مطابق مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد کرد علاقوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران 75 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

ہینگا نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پولیس اور مظاہرین کے مابین تصادم کی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں تاہم ان ویڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے علاوہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران کے دارالحکومت اور تہران یونیورسٹی میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔

امریکہ کا ردعمل

امریکہ نے مہسا امینی کی ہلاکت کےذمے داران کو جواب دہ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نامناسب‘ حجاب کو بنیاد بنا کر پولیس کا مہسا کو حراست میں لینا اور زخموں کے باعث ان کی موت انسانی حقوق کی بھیانک خلاف ورزی ہے۔

فرانس کی وزارتِ خارجہ نے بھی مہسا امینی کی گرفتاری اور ’ان کی موت کا باعث بننے والے پولیس تشدد‘ کی مذمت کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

پیر کو تہران پولیس کے کمانڈر حسین رحیمی نے پولیس پر تشدد کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مہسا کو جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا اور پولیس نے ان کی زندگی بچانے کے لیے تمام تر کوششیں کی ہیں۔

رحیمی کا کہنا تھا کہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا اور ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ مستقبل میں کوئی ایسا واقعہ دوبارہ ہو۔

احتجاج کیا رخ اختیار کرے گا؟

مہسا امینی کی ہلاکت سے قبل ہی ایران میں حجاب کی پابندیوں سے متعلق مختلف گروپس اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے تھے۔

رواں برس جولائی میں ایران میں قومی سطح پر منائے جانے والی یومِ حجاب و حیا کے خلاف حقوق کے لیے سرگرم مختلف گروپس نے خواتین پر کھلے عام حجاب اتار کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے زور دیا تھا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایران میں شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس میں ایران میں ’غیر اخلاقی رویوں‘ کو بنیاد بنا کر ہونے والی گرفتاریوں اور جرمانوں پر تشویش پائی جاتی ہے۔

مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی شیئر کی جارہی ہیں جن میں خواتین اس واقعے کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنے سر کے بال کاٹ رہی ہیں۔

علاوہ ازیں حالیہ احتجاج سے ایران کی اسٹیبلشمنٹ اور کرد اقلیت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔دہائیوں سے ایران کی انقلابی فوج پاسداران انقلاب کرد علاقوں میں پائی جانے والی بے چینی کو دبانے کے لیے کارروائیاں کررہی ہے۔ جب کہ کئی کرد کارکنوں کو قید اور موت کی سزائیں بھی دی جاچکی ہیں۔

ایران میں یہ احتجاج ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب صدر ابرہیم رئیسی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں اور اس دوران وہ ممکنہ طور مغربی ممالک کےساتھ جوہری معاہدے پر جاری مذاکرات پر بھی بات کریں گے۔

اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG