گذشتہ ماہ امریکہ کی افغانستان میں جاری جنگ کو دس سال پورے ہوئے۔ ٹھیک اُسی وقت، افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی یاد میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔
رچرڈ ہالبروک نے 50سال تک سفارت کاری کے فرائض سرانجام دیے اور اُن کا دور ویتنام سے لے کر افغانستان کی جنگ تک محیط رہا۔
گذشتہ برس اُن کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اُن کی عمر اُس وقت 69برس تھی۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نےکتاب کا رویو شائع کیا ہےجس میں لکھا گیا ہے کہ کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوتِ ارادی اور وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن کی بھرپور حمایت حاصل ہونے کے باعث خصوصی ایلچی مقرر ہوئے۔
کتاب میں لکھا گیا ہے کہ واشنگٹن میں یہ بات کوئی راز نہیں تھی کہ صدر اوباما کو ہالبروک کے کام کرنے کا انداز پسند نہیں تھا۔
کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ویتنام کی جنگ میں اُن کےتجربات بالکل ویسےہی تھے جیسےافغانستان کی صورتِ حال، یعنی بارڈر پار دشمن کے اڈے ہونا، بدعنوان حکومت اور مزاحمت کاروں سے نمٹنے کے لیے قابلِ اعتراض طریقہٴ کار۔
اخبار لکھتا ہے کہ اِس کتاب کو پڑھ کر سوال اُٹھایا جاسکتا ہے کہ ہالبروک، جنھوں نے بوسنیا کا مسئلہ حل کی تھا، کیا اُن کے اِس تجربے کو افغانستان میں مؤثر انداز میں استعمال کیا جاسکتا تھا؟ کیا افغانستان میں امریکی حکمتِ عملی زیادہ کامیاب ہوتی اگر ہالبروک اور صدر اوباما کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے؟
اخبار لکھتا ہے کہ ہالبروک افغانستان کے بارے میں بہت علم رکھتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ویتنام کی جنگ سے اِس کی کیا مماثلت ہے اور یہ کہ اِن دونوں جنگوں میں کون کون سی چیز مختلف ہے۔
اُنھوں نےافغانستان میں مزید فوج بھیجنے کی مخالفت نہیں کی، تاہم وہ سمجھتے تھے کہ کم تعداد میں فوجی ہونا بہتر ہے اور جنگی حل کے بجائے شہری مدد اور طالبان سے مذاکرات زیادہ فائدیمند ہوں گے۔
امریکہ میں ہر سال 11نومبر کو سابق فوجیوں کا دِن منایا جاتا ہے۔اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ اِس سال امریکہ کی جنگوں کو جاری رہتے ہوئے ایک عشرے سے اوپر ہوگیا۔ 11ستمبر کے فوراً بعد توجہ اِس طرف رہی کہ کتنے فوجی کہاں بھیجے جارہے ہیں۔ لیکن، اب اِن فوجیوں نے اپنے ملک لوٹنا شروع کردیا ہے۔
تاہم، اخبار لکھتا ہے کہ ویتنام جنگ کے برعکس جب واپس لوٹنے والے فوجیوں کو عوام کی طرف سے نفرت کا سامنا کرنا پڑتا تھا، عراق اور افغانستان سے لوٹنے والوں کو یہ برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ کچھ لوگ تو اُن کے شکرگزار ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اُن کے بارے میں پرواہ ہی نہیں کرتے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اِن جنگوں کا صرف ایک فی صد امریکیوں پر برائے راست اثر پڑا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اِن جنگوں میں اب تک 6000سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور30000سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں اور بہت سے سابق فوجی نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں اور وہ فوجی جو جسمانی اور نفسیاتی طور پر صحت مند رہتے ہیں، اُن کو نوکریاں تلاش کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، 20سے 24سال کی عمر کے سابق فوجیوں میں سے ایک تہائی بے روزگار ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ گو کہ اوباما انتظامیہ اِن فوجیوں کو دوبارہ ملازمت دلوانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، تاہم، اب اِس سے بھی زیادہ اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اخبار ’شکاگو ٹربیون‘ نے اسرائیل کی ایران پر حملے کی حالیہ دھمکی کے بارے میں مضمون شائع کیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ اِس قسم کے حملے کے بہت برے نتیجے نکل سکتے ہیں، کیونکہ ایران کے پاس بدلہ لینے کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ خلیجِ فارس میں موجود تیل کے ٹینکرز پر مزائلوں سے حملے کرسکتا ہے اور حزب اللہ لبنان سے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغ سکتی ہے۔اُدھر، عرا ق میں ایران کے لیے کام کرنے والے گروہ امریکی افواج کے خلاف مہم شروع کر سکتے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیلی حملے سے ایران کے جوہری پروگرام کو نقصان تو پہنچ سکتا ہے، لیکن اِسے بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا۔
اخبار لکھتا ہے کہ کسی بھی کامیاب جوہری پروگرام میں اصل اہمیت سوفٹ ویئر اور تکنیکی سمجھ بوجھ کی ہوتی ہے، مشینری کی نہیں۔ اگر اسرائیل وہ مشینری تباہ بھی کردے تو ایران کو وہ مواد دوبارہ تلاش کرنے میں مشکل نہیں ہوگی اور وہ دوبارہ اپنی مشینری کارآمد بنا لے گا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیلی شاید یہ سمجھتے ہوں کہ اُن کے حملے سے ایران میں سیاسی اور سماجی سطح پر افراتفری پھیل جائے گی۔ اخبار کے مطابق، ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن، اِس سے زیادہ اندیشہ اِس بات کا ہے کہ وہ عوام جو اِس وقت ایران حکومت کے خلاف ہیں وہ شاید قومی یکجہتی دکھاتے ہوئے حکومت کی حمایت کرنے لگیں اور اگر یہ حکومت چلی بھی جاتی ہے تو آئندہ آنے والی حکومت جوہری پروگرام جاری رکھے گی، جو کہ عوام میں بہت مقبول ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: