بھارت کی چاند گاڑی گہری نیند میں، جگانے کی کوششیں ناکام

بھارت کے خلائی ادارے کی جانب سے جاری کردہ چاند کی سطح پراتاری جانے والی روبوٹک گاڑی پرگیان کی تصویر۔ 30 اگست 2023

بھارت کے خلائی سائنس دان کئی دنوں کی مسلسل کوشش کے باوجود چاند پر اترنے والی اپنی کمپیوٹرائزڈ مشین "وکرم لینڈر "اور چاند کی سطح پر حرکت کرنے والی روبوٹک گاڑی" پرگیان "کو نیند سے بیدار نہیں کر سکے۔ اوراگر انہیں مزید چند روز تک جگایا نہ جا سکا تو پھر وہ کبھی کام نہیں کر سکیں گے۔

بھارتی سائنس دانوں نے 2 ستمبر کو پرگیان اور 4 ستمبر کو وکرم لینڈر کو سلیپ موڈ (Sleep mode) میں ڈال دیا تھا، کیونکہ چاند پر رات شروع ہو گئی تھی۔ ان آلات کو سلیپ موڈ میں ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ بیٹریوں کی توانائی کو بچایا جا سکے اور لمبی رات کے بعد جب سورج طلوع ہو تو ان دونوں آلات میں اتنی توانائی موجود ہو کہ وہ اپنا کام دوبارہ شروع کر سکیں۔

زمین پر دن اور رات کا دورانیہ مجموعی طور پر 24 گھنٹے ہوتا ہے جب کہ چاند کا ایک دن اور رات 655 گھنٹوں یعنی زمین کے تقریباً ساڑھے 29 دنوں کے برابر ہے۔ چاند کا ایک دن ، زمین کے ساڑھے 14 دنوں کا اور رات بھی ساڑھے 14 دنوں کی ہی ہوتی ہے۔

چاند گاڑی کا چاند کی سطح پر اترنے کا منظر بھارت میں ٹیلی وژن پر براہ راست دکھایا گیا۔ 23 اگست 2023

بھارت کے خلائی ادارے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن نے چاند کا اپنا مشن جنوبی قطبی علاقے میں اتارا ہے جہاں رات کے وقت درجہ حرارت 200 سے 250 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ یہ درجہ حرارت اتنا کم ہے کہ بیڑی کام کرنا چھوڑ سکتی ہے۔

آپ نے یہ دیکھا ہو گا کہ سردیوں کی صبح کو کار اسٹارٹ کرنے میں کچھ زیادہ وقت لگتا ہے کیونکہ جیسے جیسے درجہ حرارت گرتا ہے بیٹری کی کارکردگی کم ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ بیٹری منجمد ہو جاتی ہے اور برقی رو پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی۔کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا وکرم اور پرگیان کو بھی ہے۔

بھارت کے خلائی سائنس دانوں کو اس صورت حال کا پہلے سے علم تھا اور اسی لیے انہوں نے چاند پر رات شروع ہونے سے پہلے پرگیان اور وکرم کے آلات کو نیند کی حالت میں ڈال دیا تھا تاکہ جب چاند پر دن طلوع ہو تو اس کی بیٹریوں میں اتنا کرنٹ موجود ہو کہ ان سے رابطہ بحال کیا جا سکے۔

بھارتی سائنس دانوں نے ان دونوں روبوٹک مشینوں کی بیٹریوں کو چارج کرنے کے لیے ان پر شمسی توانائی کے پینلز نصب کیے ہیں تاکہ چاند کے دن میں، جو زمین کے 14 دنوں سے زیادہ بڑا ہے، بیٹریاں دوبارہ چارج ہو جائیں اور سائنسی تحقیق کا کام پھر سے شروع ہو جائے۔

وکرم اور پرگیان 23 اگست کو چاند کے جنوبی قطبی علاقے میں اترے تھے۔ ماہرین اس حصے کو کئی اعتبار سے ایک مشکل اور دشوار حصہ سمجھتے ہیں۔ اس سے قبل زیادہ تر سائنسی مشن چاند کے اس علاقے میں اتارے گئے جس کا رخ زمین کی طرف رہتا ہے۔

SEE ALSO: بھارتی خلائی مشن کی چاند گاڑی کے دو ہفتوں کا سفر مکمل

چند برس قبل جنوبی قطبی علاقے میں چاند گاڑی اتارنے کی بھارتی سائنس دانوں کی پہلی کوشش گاڑی کے اترتے وقت آخری لمحات میں ناکام ہو گئی تھی۔ جب کہ 23 اگست کی کامیاب لینڈنگ سے پانچ دن پہلے اسی علاقے میں سائنسی گاڑی اتارنے کا روس کا مشن بھی ناکام ہو گیا تھا۔

وکرم لینڈر اور پرگیان روور ، بھارت کے چندریان تھری مشن کا حصہ ہیں جن کے بارے میں یہ خدشات پہلے سے موجود تھے کہ شاید وہ اپنا یہ مشن دو ہفتوں سے زیادہ جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ اس لیے بھارتی سائنس دانوں نے اپنی زیادہ تر توجہ ابتدائی ا دو ہفتوں کے دوران زیادہ سے زیادہ سائنسی تحقیق اور ڈیٹا اکھٹا کرنے پر مرکوز رکھی۔

بھارت کے خلائی تحقیق کے ادارے کے ایک مرکز میں سائنس دان چاند گاڑی بنانے پر کام کررہے ہیں۔ فائل فوٹو

پرگیان نے چاند کی سطح پر اپنے تجربات جاری رکھتے ہوئے سست رفتاری سے سفر کیا اور اس میں نصب آلات نے گرد و بیش کے بارے میں ڈیٹا اکھٹا کر کے زمینی مرکز کو بھیجا۔ پرگیان نے 10 دنوں میں اپنے 100 میٹر کے سفر کے دوران اس علاقے میں گندھک، لوہے، ٹائٹینم اور آکسیجن کی موجودگی کی تصدیق کی۔

وکرم لینڈر اور پرگیان روور پر مشتمل چندریان تھری کے مشن کی کامیابی کے بعد بھارت چاند کو سر کرنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن گیا ہے۔ پہلے تین ملک بالترتیب امریکہ، روس اور چین ہیں۔

چاند پر اتارا جانے والا بھارت کا وکرم روور۔ 5 اگست 2023

6 اکتوبر سے چاند پر دوبارہ رات شروع ہو جائے گی اور درجہ حرارت دوبارہ منفی 200 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نیچے چلا جائے گا۔ انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سائنس دان مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح وکرم لینڈر اور پرگیان روور سے رابطہ جوڑ کر مزید سائنسی تجربات کا راستہ کھولا جائے۔

اگر یہ دونوں کمپیوٹرائزڈ گاڑیاں اپنی گہری نیند سے بیدار ہو کر فعال زندگی کی جانب نہ لوٹیں تو بھارتی خلائی ایجنسی کے بقول وہ وہاں چاند کے لیے بھارتی سفیر کے طور پر ہمیشہ موجود رہیں گی۔

(اس تحریر کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)