عالمی مارکیٹ میں اسمگل ہونے والا نادر مجسمہ پاکستان کو واپس کیسے ملا؟

گندھارا تہذیب کے اس نادر نمونے کو پاکستان کے حوالے کرنے کی تقریب میں آسٹریلیا کی نیشنل گیلری آف آرٹس اور آسڑیلیا کے دفتر ِخارجہ کے حکام بھی موجود تھے۔

آسٹریلوی حکام نے پاکستان سے اسمگل کیے جانے والے قدیم گندھارا تہذیب کے 'بدھی ستوا' مجسمے کا سر پاکستان کے حوالے کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران 950 اسمگل شدہ نادر اور نایاب نوادرات اور فن پارے پاکستان واپس لائے گئے ہیں۔

'بدھی ستوا' مجسمے کا سر آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں ہونے والی تقریب میں پاکستانی ہائی کمیشن کے حوالے کیا گیا۔

بدھ مت کی ترویج اور لوگوں کو اس جانب راغب کرنے والے مذہبی پیشواؤں کو سنسکرت میں 'بدھی ستوا' کہا جاتا ہے۔

گندھارا تہذیب کے اس نادر نمونے کو پاکستان کے حوالے کرنے کی تقریب میں آسٹریلیا کی نیشنل گیلری آف آرٹس اور آسڑیلیا کے دفتر ِخارجہ کے حکام بھی موجود تھے۔

بدھی ستوا مجسمے کا سر پاکستان سے بیرونِ ملک اسمگل کیا گیا تھا۔


پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ نادر نمونہ پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے اسمگل کر کے امریکہ لے جایا گیا اور بعد ازاں ایک بھارتی آرٹ کولیکٹر نے آسٹریلیا کی نیشنل گیلری آف آرٹس کو فروخت کر دیا تھا۔

پاکستان ہائی کمیشن کے بیان کے مطابق بھارتی آرٹ کولیکٹر نے اس فن پارے کو 2006 میں آسٹریلیا کے نیشنل گیلری آف آرٹس کو فروخت کیا تھا۔لیکن بعد ازاں گیلری نے اس فن پارے کی غیر قانونی حیثیت کا تعین ہونے کے بعد اسے پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اب یہ فن پارہ کینبرا میں پاکستان ہائی کمیشن کے پاس موجود ہے اور اسے جلد پاکستان بھیج دیا جائے گا۔


محکمہ آثار قدیمہ پاکستان کے عہدیدار محمود الحسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور کسی اور ملک سے سے غیر قانونی طورپر بیرون ملک اسمگل ہونے والے نوادرات کو یونیسکو کے ایک کنونشن کے تحت واپس کیا جاتا ہے۔

یادر ہے کہ 1970 میں غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل ہونے والی ثقافتی املاک کی تجارت کی روک تھام سے متعلق یونیسکو کنونشن کےتحت اسمگل شدہ نوادرات کی متعلقہ ملک کو واپس کرنا ہر رُکن ملک پر لازم ہے۔ اس کنونشن کی توثیق اب تک اقوامِ متحدہ کے لگ بھگ 140 سے زیاہ رکن ممالک کر چکے ہیں۔

گندھارا تہذیب کے کئی نادر نمونے پاکستان کے مختلف عجائب گھروں میں رکھے گئے ہیں۔

اُنہوں نے کہا پاکستان میں نوادارت اور آثار قدیمہ کے تحفظ کے لیے 1975 میں وضع کیے جانے والے قانون کےتحت اسمگل کرنے کی کوشش کے دوران ضبط شدہ آثار قدیمہ کے فن پارے وفاقی حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں۔انہیں کسی دوسرے ملک سے واپسی کے بعد بھی اسلام آباد میں واقع عجائب گھر میں رکھا جاتا ہے۔

ان کےبقول اگر کوئی بھی شخص کسی دوسرے ملک میں غیر قانونی طور پر نوادرات کے کاروبار میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس ملک کے قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے لیکن اگر پاکستان میں کوئی شخص پکڑا جائے تو پاکستانی قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔

محمود الحسن کہتے ہیں کہ پاکستان کے عجائب گھر سے فن پارے بہت کم چوری ہوتی ہیں لیکن آثار قدیمہ سے غیر قانونی کھدائی کر کے انہیں مارکیٹ میں فروخت کرنے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں جس کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

محمود الحسن کہتے ہیں کہ پاکستان کے عجائب گھروں میں فن پاروں کی باقاعدہ تصاویر بنا کر ان کا اندراج ایک رجسٹر میں کیا جاتا ہے ان کی تصاویر بھی ان کے ساتھ ہی چسپاں جاتی ہے۔ لہذٰا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ ایسا کوئی فن پارہ چوری ہو جائے لیکن چوری کی صورت میں ان فن پاروں کی دستاویزات کو انٹرپول یا دیگر متعلقہ تنظمیوں کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے تاکہ ان کی عالمی مارکیٹ میں خرید و فروخت نہ ہو سکے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کے عہدیدار بخت محمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی کھدائی کے ذریعے قدیم ثقافتی فن پار ے حاصل کرنے کی کوششوں کی روک تھام اور ان کی غیر قانونی تجارت کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک ونگ تشکیل دیا گیا ہے۔

بخت محمد کہتے ہیں کہ ان کے پاس یہ معلومات نہیں کہ ملک سے غیر قانونی کھدائی کے بعد کتنی تعداد میں نوادرات کو اسمگل کیا گیا ہے لیکن ملک کے اندر ہزاروں کی تعداد میں نوادرات اور فن پاروں کو ملک سے باہر جانے کےدوران ضبط کر لیا گیا ہے۔

اُن کے بقول صوبے میں لگ بھگ 90 آثار قدیمہ کے مقامات کو محفوظ قرار دیا جاتا ہے اس کے لیے ہزاروں ایسے مقامات ہیں جو آثار قدیمہ کے حوالے سے اہم ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ دودہائیوں سے کئی بیرونی ممالک میں ضبط ہونے والے لگ بھگ 950 پاکستانی ثقافتی اور تاریخی نوادرات کو پاکستان واپس کیے گئے جن ممالک سے یہ فن پارہ واپس کیے گئے ان میں امریکہ ، برطانیہ، فرانس اور اٹلی شامل ہے اور ان میں سے زیادہ تر فن پاروں کا تعلق گندھارا تہذیب سے تھا۔