آنکھوں میں غصہ اور بے بسی لیے راول پنڈی پریس کلب کے باہر موجود عبدالرحمان کے ہاتھوں میں بجلی کا بل تھا۔ وہ ان سینکڑوں مظاہرین کے ساتھ احتجاج میں شریک تھے جو رواں ماہ آنے والے بجلی کے بلوں کی وجہ سے شدید پریشان ہیں۔
سولہ ہزار روپے پر گارڈ کی نوکری کرنے والے عبدالرحمان کے گھر پر دو بلب اور دو پنکھے ہیں جن کا بل 23 ہزار روپے آیا ہے۔ میں کیسے ادا کروں گا یہ بل؟ ابھی تو بچوں کے لیے راشن بھی نہیں خریدا، ابھی تو بچوں کی اسکول فیس بھی نہیں دی؟ خود سے باتیں کرتا یہ شخص اپنا بل اٹھا کر احتجاج میں شامل رہا لیکن کوئی اس کو جواب دینے والا نہیں تھا۔
اسلام آباد میں اسپیئر پارٹس کا کاروبار کرنے والے دانش ملک بھی اسی صورتِ حال سے دوچار ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہر ماہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار تک بل آتا تھا جو اس ماہ سات ہزار روپے آیا ہے۔ کاروبار ختم ہوتے جارہے ہیں اور بل بڑھتے جا رہے ہیں۔
یہ حال پاکستان میں تقریباً ہر بل ادا کرنے والے شخص کا ہے جو رواں ماہ آنے والے بجلی کے بل دگنے سے بھی زائد ہونے پر پریشان ہے۔
حکومت نے گزشتہ روز ایک کروڑ 71 لاکھ صارفین اور تین لاکھ ٹیوب ویلز کے لیے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق حکومت کی نااہلی سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
حکومت کی طرف سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مدمیں جون کے لیے تقسیم کار کمپنیوں کو بجلی 9روپے 90پیسے جب کہ کےالیکٹرک کو 11روپے 10پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
دوسری جانب بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے پر سپریم کورٹ میں آئینی درخواست بھی دائر کردی گئی جس میں بلوں میں اضافے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے آرٹیکل کے تحت بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ 15 ہزار روپے تنخواہ لینے والے صارف کا 25 ہزار بجلی کا بل بھی قرض لے کرجمع کرانا پڑے گا، غریب بچوں کو روٹی کہاں سے کھلائے گا اور کرایہ کیسے اداکرے گا، حکومت کسی شہری پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈال سکتی۔
وفاقی وزیر پانی و بجلی خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ بجلی ڈسٹری بیوٹر کمپنیوں میں جدت لانی ہے، صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی ہمارا چیلنج ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ دو سو یونٹ تک کے صارفین کو سہولت فراہم کرنے سے عوام کو 22 ارب روپے کا فائدہ دیا جارہا ہے۔
حکومت کا مؤقف اپنی جگہ لیکن بجلی کے بلوں سے شدید مہنگائی کے شکار عوام مزید مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق 200 یونٹ تک صارفین کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ معاف کرنے سے حکومت کو صرف 11 ارب روپے کا نقصان اور عوام کو فائدہ پہنچے گا۔
فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہوتی کیا ہے؟
فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں شرمین سیکیورٹی سے منسلک ہیڈ آف ریسرچ فرحان محمود نے کہا کہ پاکستان میں مختلف فیولز سے بجلی بنائی جاتی ہے جن میں گیس، کوئلہ اور پیٹرول شامل ہے۔ ان کی قیمت میں جو بھی تبدیلی آتی ہے، ان کی قیمت میں آنے والی تبدیلی کو آئندہ مہینوں میں ایڈجسٹ کردیا جاتا ہے۔ اس میں نیپرا میں پٹیشن فائل کرنے کے بعد قیمت میں تبدیلی آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر مہینے میں پیداوار مختلف ہوتی ہے، اس میں بعض صارفین کو سبسڈی دی جاتی ہے، ان سب چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایڈجسٹمنٹ کی جاتی ہے۔
فرحان محمود نے کہا کہ ایک بیس ٹیرف ہوتا ہے، گزشتہ برس بیس ٹیرف اور فروخت ہونے والی بجلی کی قیمت میں بہت زیادہ فرق تھا اور اس میں تقریباً آٹھ روپے کا فرق تھا۔مشکل معاشی صورتِ حال کے باعث حکومت نے اب اس میں بھی اضافہ کردیا ہے اور ستمبر تک یہ اضافہ جاری رہے گا، جس کے بعد اکتوبر میں امکان ہے کہ قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم وجہ ہائیڈل پاور بھی ہے، ملک میں اس وقت بارشیں بہت زیادہ ہوئی ہیں اور ڈیمز میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے اگر ملک میں ہائیڈل پیداوار زیادہ ہو تو بھی بجلی کی قیمت کم ہوسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں سات ہزار میگاواٹ کے قریب پانی سے بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے، اگر اس سے اتنی بجلی بنے تو بجلی کی قیمت کم ہوسکتی ہے۔
اگست کے بلوں کے ساتھ ہوا کیا ہے؟
فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہر ماہ صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں اور گزشتہ کئی ماہ سے ہر ماہ بلوں میں صرف اضافہ ہوتا ہے، اس میں کمی بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے لیکن رواں اگست میں ایسا کیا ہوا کہ عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں؟
اس ماہ بلوں میں اضافے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے پاور سیکٹر پر کام کرنے والے ڈان اخبار سے منسلک سینئر صحافی خلیق کیانی کہتے ہیں کہ اس بار بجلی کے زیادہ بل اووربلنگ اور ایڈجسٹمنٹ ڈبل چارج کرنے کی وجہ سے ہے۔
اُن کے بقول اس بار عید کے دنوں میں مختلف کمپنیوں کی طرف سے ریڈنگ نہیں لی گئی جس کے بعد گزشتہ ماہ سات روپے سے زائد اور رواں ماہ 9 روپے 91 پیسے کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ شامل کیا گیا۔ اس مد میں صارفین کو 17 روپے فی یونٹ اضافی ادا کرنا پڑے ہیں۔ اسی وجہ سے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ ہرسال بنیادی ٹیرف میں اضافہ ہوتا ہے جو دو یا تین فی صد سے زائد نہیں ہوتا لیکن بنیادی ٹیرف میں ہی وقت پر اضافہ نہیں ہوتا۔حکومت ہر ذریعے سے حاصل ہونے والی بجلی کی اوسط قیمت نکال کر بل بنانا شروع کرتی ہے۔
اُن کے بقول اس سال فروری میں بیس ٹیرف 5 روپے 65 پیسے تھا لیکن جون میں ایل این جی نہ آنے، ہائیڈرل بجلی کم ہونے سے اور دیگر وجوہات کی بنا پر بنیادی ٹیرف 5 روپے 60 پیسے سے بڑھ کر 15 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ لہذٰا صرف ایک ماہ میں عوام کو 155 ارب روپے کے اضافی بل بھیج دیے گئے ہیں۔
خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ میں نے اووربلنگ کے حوالے سے وزیر پانی و بجلی خرم دستگیر سے پوچھا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اووربلنگ کی شکایات موجود ہیں اور ہم اس بارے میں باقاعدہ تحقیقات کررہے ہیں۔
ان کے بقول بیوروکریسی کی غلطیاں بھی موجود ہیں جن میں ایل این جی کی غلط وقت پر خریداری، کوئلے کی تاخیر سے خریداری کی وجوہات تو موجود ہی ہیں لیکن سب سے بڑی وجوہات ڈبل چارج کرنا اور عوام کو بھاری بل بھجوانا ہے جو سراسر بیوروکریسی کی غلطی ہے۔
دو سو یونٹ سے اوپر والوں کا کیا بنے گا؟
خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ اس وقت ریلیف صرف سو یونٹ تک والوں کو دیا جارہاہے، لیکن متوسط طبقہ جن کا عام طور پر تین سو یونٹ سے زائد کا بل ہے انہیں ریلیف دینے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ ان افراد سے ڈبل فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ وصول کی جارہی ہے۔ ایک عام صارف کا بل جو تین سے چار ہزار روپے تھا ان اقدامات کی وجہ سے بڑھ کر 12 سے 15 ہزار تک جا پہنچا ہے جس کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
معاشی اُمور کو کور کرنے والے صحافی مشتاق گھمن کہتے ہیں کہ ایک بل میں بنیادی ٹیرف کے بعد کئی ٹیکسز شامل ہوتے ہیں۔ عوام کو فرنس آئل، کوئلہ، گیس سمیت دیگر چیزوں کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اس وقت بھی ان چیزوں کی قیمت میں اضافہ جاری ہے لہذا یہ بل آئندہ ایک دو ماہ تک ایسے ہی زیادہ آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کمپنیاں کاروبار کررہی ہیں اور انہوں نے ہر حال میں اپنا منافع اور اپنے اخراجات حاصل کرنے ہیں لہذا جون میں 9 روپے 91 پیسے کا اضافہ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
مشتاق گھمن کا کہنا تھا کہ رواں سال فروری میں بیس ٹیرف بڑھنا تھا لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس میں تاخیر کی جس کے بعد موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں بھی اضافہ کردیا۔
ان کاکہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے دو سو روپے یونٹ تک کے صارفین کو سہولت دینے سے صرف 11 ارب روپے کا فرق پڑے گا۔ اس سے صرف ایک طبقہ کو فرق پڑے گا لیکن عوام کی ایک بڑی اکثریت اور 201 سے زائد یونٹ استعمال کرنے والوں کو بجلی کے زیادہ بل آئیں گے۔
فرحان محمود کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے سبسڈی کے لیے رقوم رکھی جاتی تھی لیکن اب ایسا کوئی بندوبست نہیں کیا جارہا اور فیول کی قیمتوں میں آنے والا فرق صارفین کو منتقل کیا جارہا ہے۔ اس وقت بجلی کی پیداوار میں نجی شعبہ کے پاس تقریباً40فی صد اور 60فی صد سرکاری شعبہ کے پاس ہے۔ اگر اوسطاً بجلی پیداوار کو دیکھا جائے تو یہ 15 ہزار میگاواٹ ہے جس پر فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں750 سے 800ارب روپے کا بوجھ ہے جو عوام پر منتقل کیا گیا ہے، اگر اسے ماہانہ کیا جائے تو ہر ماہ 50 سے 60 ارب روپے کی رقم ہے جو عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
بجلی کے بلوں کے معاملات عدالتوں میں جارہے ہیں اور لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن پر عدالت نے صارف کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ باقی واجبات ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی پٹیشن دائر کی گئی ہے اور اس حوالے سے اگر حکومت کے لیے کوئی حکم نامہ سامنے آیا تو حکومت کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔