بھارت کی سپریم کورٹ نے بلقیس بانو اجتماعی زیادتی اور قتل کے 11 مجرموں کی رہائی پر گجرات کی ریاستی حکومت اور مرکز کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ عدالت نے دو ہفتے کے اندر اندر دونوں حکومتوں سے جواب طلب کر لیے ہیں۔
اس معاملے میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے تمام 11 قیدیوں کو گجرات حکومت نے ایک کمیٹی کی سفارش پر قبل از وقت رہا کر دیا ہے۔ ان کی رہائی 15 اگست کو ہوئی ہے۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
گجرات حکومت کے فیصلے کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی ایم) کی پولٹ بیورو کی رکن سبھاشنی علی، ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہووا مویترا، ایک آزاد صحافی اور فلم ساز ریوتی لاول اور انسانی حقوق کی کارکن پروفیسر روپ ریکھا ورما نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی سربراہی والے تین رکنی بینچ نے اس معاملے پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس وکرم ناتھ بھی شامل تھے۔ عدالت نے منگل کو اس معاملے پر سماعت کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی۔
یاد رہے کہ جسٹس رستوگی اور وکرم ناتھ کے بینچ نے ایک قیدی کی درخواست پر سماعت کے دوران ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ ایک کمیٹی تشکیل دے جو قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر قانون کے مطابق غور کرے۔
جمعرات کو سماعت کے دوران جسٹس رستوگی نے کہا کہ جس جرم کا ارتکاب کیا گیا تھا اس میں ملزموں کو قصور وار قرار دے کر انہیں سزا سنائی گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ جس پالیسی کے تحت انہیں جیل سے رہا کیا گیا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں۔ ان کے مطابق ریاستی حکومت سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ قیدیوں کو معافی دینے کے معاملے پر قانون کے مطابق غور کرے۔
نیوز ویب 'سائٹ لائیو لا' کے مطابق جسٹس رستوگی نے درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل سے سوال کیا کہ ان لوگوں کا جرم بہت بھیانک تھا تو کیا یہ کہنا کافی ہے کہ معافی دینے کا فیصلہ غلط تھا۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ قیدیوں کو رہا کیے جانے کے فیصلے میں دماغ کا استعمال ہوا ہے یا نہیں۔ خیال رہے کہ چیف جسٹس این وی رمنا جمعے کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ ان کی جگہ پر جسٹس یو یو للت چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا جو کہ درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے صرف کمیٹی بنانے اور متعلقہ پالیسی کے تحت اس معاملے پر غور کرنے کو کہا تھا۔
جب درخواست گزاروں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ عدالت سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ قیدیوں کو معافی دینے کا فیصلہ منسوخ کیا جائے تو پھر ان قیدیوں کو فریق کیوں نہیں بنایا گیا تو اس پر عدالت نے حکم دیا کہ رہا کیے جانے والے تمام قیدیوں کو بھی اس معاملے میں فریق بنایا جائے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے نوٹس جاری کیے جانے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم ’فورم فار سول رائٹس‘ کے چیئرمین سید منصور آغا نے سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس جاری کیے جانے کا خیرمقدم کیا او رکہا کہ انہیں امید ہے کہ قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ منسوخ کیا جائے گا اور انہیں دوبارہ جیل بھیجا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ گجرات حکومت کے اس فیصلے سے پوری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہو رہی ہے۔ مذہبی آزادی سے متعلق امریکہ کے کمیشن نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ بقول ان کے یہ فیصلہ قانونی اعتبار سے بھی غلط ہے اور انسانی و اخلاقی اعتبار سے بھی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اجتماعی زیادتی اور 13 افراد کے وحشیانہ قتل میں ملوث مجرموں کو معافی دینے کے فیصلے سے اب خواتین کے خلاف جرائم کرنے والوں کے حوصلے بہت بڑھ جائیں گے اور ایسے جرائم میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا اس فیصلے کو کالعدم کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فروری 2002 میں لکشمن ناسکر بنام مرکزی حکومت کے کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ قیدیوں کو معافی دینے سے قبل ریاستی حکومتوں کو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کیا جرم کی نوعیت انفرادی تھی اور کیا سماج پر معافی دینے کے وسیع تر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے ایک گائیڈ لائن جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ قتل اور اجتماعی زیادتی کے معاملات میں عمر قید کی سزا پانے والوں کو حکومت کی جانب سے خصوصی معافی نہیں دی جائے گی۔
ان کے خیال میں گجرات حکومت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے حکم اور مرکزی وزارت داخلہ کے حکم کے بھی خلاف ہے۔
سید منصور آغا نے کہا کہ گجرات حکومت کے فیصلے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کا خواتین پر بہت گہرا اثر پڑا ہے اور ان میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ ان کے بقول اب کوئی بھی شخص خواتین کے خلاف اس قسم کا بھیانک جرم کرتے وقت یہ سوچ سکتا ہے کہ اسے معافی مل جائے گی۔ لہٰذا اس غلط نظیر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
اُنہوں نے اس معاملے پر وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ امت شاہ کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیرِ اعظم نے اسی روز لال قلعے سے خطاب کے دوران خواتین کے احترام کی بات کہی تھی اور ان کے خلاف نفرت ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔ لیکن گجرات حکومت کے اس فیصلے نے ان کے بیان پر پانی پھیر دیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم ہونے والی کمیٹی نے 1992 کے قانون کے تحت قیدیوں کو معافی دینے کی سفارش کی تھی۔ اس نے قیدیوں کی اس دلیل کو تسلیم کیا کہ چونکہ انہوں نے 14 برس جیل میں گزار لیے ہیں اس لیے عمر قید کی مدت پوری ہو گئی۔ لہٰذا انہیں معافی دی جائے۔
اس 10 رکنی کمیٹی میں پانچ ارکان ضلع کے افسران تھے اور باقی پانچ کا تعلق حکمرا ں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تھا۔ جن میں سے دو رکن اسمبلی ہیں اور دو خواتین ہیں۔ کمیٹی کے ارکان کے مطابق انہوں نے اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد اتفاقِ رائے سے قیدیوں کو معافی دینے کی سفارش کی تھی۔
پندرہ اگست کو قیدیوں کے گودھرا سب جیل سے باہر آنے کے بعد یہ معاملہ ایک بڑے سیاسی تنازعے میں تبدیل ہو گیا۔ کانگریس سمیت حزبِ اختلاف کی کئی جماعتوں اور انسانی حقوق کے اداروں، کارکنوں اور قانونی ماہرین نے اسے انصاف کا مذاق قرار دیا۔
ملزموں کو مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنانے والے ممبئی کی اس وقت کی خصوصی سی بی آئی عدالت کے جج جسٹس یو ڈی سالوی نے مختلف میڈیا اداروں سے بات کرتے ہوئے فیصلے کو انصاف کے منافی قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ کمیٹی کو چاہیے تھا کہ وہ فیصلہ سنانے والے جج سے بھی مشورہ کرتی جو کہ اس کی ذمہ داری تھی لیکن اس نے ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے معاملات میں ریاستی حکومت کو مرکزی حکومت سے مشورہ کرنا ہوتا ہے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ گجرات حکومت نے مرکزی حکومت سے مشورہ کیا تھا یا نہیں۔
رہائی کے بعد شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد کے دفتر میں ہار پہنا کر قیدیوں کا استقبال کیا گیا جس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔
بلقیس بانو اور ان کے شوہر یعقوب رسول نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد وہ لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ گاؤں کے متعدد مسلم خاندانوں نے گاوں چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لے لی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ قیدیوں کی جانب سے گواہوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔