|
امریکہ میں اسرائیل حماس جنگ کے خلاف کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والے احتجاج کا دائرہ کئی جامعات تک پھیل چکا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ کی جامعات کسی بین الاقوامی مسئلے پر احتجاج کی وجہ سے عالمی توجہ کا مرکز بنی ہیں۔
اس سے قبل بھی امریکہ کی یونیورسٹیوں سے شروع ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں کئی سماجی مسائل اجاگر ہوئے ہیں اور کئی مرتبہ یہ حکومتی فیصلوں اور قانون سازی پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔
غزہ جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ اپنی جامعات سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ خود کو ایسی کمپنیوں سے علیحدہ کریں جو غزہ میں اسرائیل کی عسکری مہم سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعض مظاہرین جامعات پر اسرائیل کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یونیورسٹی اور سدرن کیلی فورنیا، یونیورسٹی آف ٹیکساس، جارج واشنگٹن یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، کیلی فورنیا اسٹیٹ پولی ٹیکنک یونیورسٹی، ایمرسن کالج، نیویار یونیورسٹی، ایموری یونیورسٹی، نارتھ ویسٹ یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی سمیت مختلف جامعات میں مظاہرے کیے گئے ہیں۔
امریکی جامعات میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے حامی طلبہ بھی احتجاج کر رہے ہیں اور کئی مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو بھی طلب کیا گیا ہے۔
امریکہ میں یونیورسٹیز میں فلسطینیوں کے حامی طلبہ کے مظاہروں سے متعلق ناقدین اور اسرائیل کے حامی طلبہ گروپس کا کہنا ہے کہ ان کے منتظمین میں یہود مخالف کارکن بھی شامل ہیں اور کئی مقامات پر اسرائیل کی مخالفت کی آڑ میں یہودیوں کے خلاف نفرت انگیزی (اینٹی سیمیٹزم) کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
شہری حقوق کی تحریک
امریکہ میں شہری حقوق اور نسلی امتیاز کے خاتمے کے خلاف تحریک کے لیے 1960 کی دہائی انتہائی اہم ثابت ہوئی اسی دہائی میں امریکی تاریخ کی مؤثر ترین طلبہ تحریک شروع ہوئی۔
اس سے قبل امریکی سپریم کورٹ نے 1954 میں ’براؤن بنام بورڈ آف ایجوکیشن‘ کے نام سے معروف مقدمے میں تعلیمی اداروں میں نسلی بنیادوں پر علیحدگی (سیگریگیشن) کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ تاہم تعلیمی اداروں میں نسلی تفریق پر مبنی کئی قواعد برقرار تھے۔
فروری 1960 میں نارتھ کیرولائنا کے گرینزبورو ایگری کلچر اینڈ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں طلبہ نے کیفے میں سفید فام طلبہ کے لیے علیحدہ کاؤنٹر کے خلاف دھرنا دیا جو بعدازاں امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے 50 شہروں تک پہنچ گیا۔
اس دھرنے سے شروع ہونے والے مظاہروں نے شہری حقوق کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد 1964 میں 'سول رائٹس ایکٹ' منظور ہوا۔ اس قانون سازی کے بعد عوامی مقامات پر ہر طرح کی نسلی امتیاز اور رنگ و نسل اور جنس کی بنیاد پر تفریق کو ختم کردیا گیا۔
مؤرخین کے مطابق گرینزبورو سے شروع ہونے والے مظاہرے امریکہ میں سماجی تبدیلی کا باعث بننے والی اہم ترین تحریکوں میں سرِ فہرست ہے۔
ویت نام جنگ کے خلاف احتجاج
سول رائٹس موومنٹ کی کامیابی کے بعد امریکہ کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں 1960 کی دہائی کے آخر میں ایک اور پر زور تحریک نے سر اٹھایا جو ویت نام جنگ میں امریکہ کی شمولیت کے خلاف تھی۔
شمالی ویت نام پر کمیونسٹوں کا کنٹرول قائم ہونے کے بعد 1954 میں جنوبی ویت نام کے ساتھ اس کی جنگ شروع ہوگئی۔ 1948 میں چین میں کمیونسٹ حکومت کے قیام کے بعد کمیونزم کے ایشیا میں پھیلاؤ سے متعلق امریکہ میں خدشات بڑھ گئے تھے۔
اسی لیے امریکہ نے ایشیا میں کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے جنوبی ویت نام کی مالی اور عسکری مدد شروع کردی تھی اور جنگ میں اپنی فوج بھی بھیجی۔
اپریل 1968 میں اسی کولمبیا یونیورسٹی سے ویت نام جنگ میں امریکہ کے کردار کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا جہاں گزشتہ ہفتے اسرائیل حماس جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے 100 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ویت نام جنگ کے خلاف کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج کی وجہ سے کولمبیا یونیورسٹی نے پینٹاگان کے اس انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ اشتراک ختم کردیا تھا جو ویت نام جنگ پر تحقیق کر رہا تھا۔
کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹی کے علاوہ امریکہ کی کئی بڑی جامعات کے طلبہ گروپس نے اس تحریک میں حصہ لیا۔ کئی مواقع پر ان مظاہروں میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوا۔
مئی 1970 میں اوہایو کی کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی میں ویت نام جنگ میں امریکہ کے کردار اور اسے کمبوڈیا تک بڑھانے کے خلاف احتجاج کے دوران نینشل گارڈز کی جانب سے گولی چلا دی گئی۔ اس واقعے میں چار طلبہ کی موت واقع ہوئی تھی۔
طلبہ کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں لاکھوں طلبہ نے مظاہروں میں حصہ لیا اور سینکڑوں تعلیمی اداروں میں تدریس کا بائیکاٹ کیا۔ ان مظاہروں نے امریکہ میں ویت نام جنگ پر پہلے سے پائے جانے والے اختلاف رائے کو مزید واضح کیا اور سماجی طور پر دور رس اثرات مرتب کیے۔
امریکہ نے دو دہائیوں تک جاری رہنے والی ویت نام جنگ میں شامل رہنے کے بعد 1973 میں ویت نام سے اپنی فوج واپس بلا لی تھی۔
اپارتھائیڈ کے خلاف احتجاج
سن 1985 تک عالمی سطح پر جنوبی افریقہ میں قائم اپارتھائیڈ کے خلاف آوازیں زور پکڑ رہی تھیں۔ امریکہ میں کولمبیا اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا جیسی جامعات کے طلبہ نے بھی اس میں حصہ لیا اور انتظامیہ سے جنوبی افریقہ میں سرمایہ کاری ختم کرنے کا مطالبہ شروع کردیا۔
مؤرخین کے مطابق ان مظاہروں نے جنوبی افریقہ کی نسل پرستانہ حکومت پر سیاسی اور معاشی دباؤ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1990 کی دہائی میں جنوبی افریقہ سے اپارتھائیڈ کا خاتمہ ہوگیا۔
مکھن سے شروع ہونے والا احتجاج
امریکہ میں طلبہ کی احتجاجی تحریک سے متعلق مصنف جیرار جی گروٹ لکھتے ہیں کہ امریکہ میں طلبہ کے احتجاج کی تاریخ امریکی انقلاب سے بھی پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ اس سلسلے کی اولین مثال 1776 میں ہارورڈ کے طلبہ کے احتجاج کی صورت میں ملتی ہے۔ اس احتجاج کو ’مکھن بغاوت‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
طلبہ نے خراب مکھن دینے کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا اسی لیے اسے یہ نام دیا گیا۔
جیرار لکھتے ہیں کہ 1760 کی دہائی میں امریکی طلبہ نے تاجِ برطانیہ کے خلاف احتجاج کیا۔ 1830 کی دہائی میں یہ غلامی کے خلاف سڑکوں پر آئے۔
SEE ALSO: امریکہ کاپہلا پارک جہاں 1830 تک ہر ایک کو گائے چرانے کا حق تھاان کے مطابق طلبہ امریکی سماج میں تبدیلیوں کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں اور اس کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب کوئی ملکی سطح کا معاملہ درپیش نہ ہو تو وہ مقامی سطح پر قواعد و ضوابط یا انتظامی مسائل کے خلاف فعال کردار ادا کرتے ہیں۔
حالیہ تاریخ میں مظاہرے
’بلیک لائیوز میٹر‘ موومنٹ کا آغاز 2013 میں فلوریڈا میں ہونے والے ایک سیاہ فام نوجوان کے قتل کے سفید فام ملزم کی بریت کے بعد شروع ہوئی تھی۔
البتہ 25 مارچ 2020 کو ریاست منی سوٹا میں 46 سالہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں موت کے بعد ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے عنوان کے تحت ہونے والے مظاہروں نے نسلی امتیاز کے خلاف ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔
جارج فلائیڈ کی گرفتاری کے دوران پولیس افسر کی جانب سے ان کی گردن پر گھٹنا رکھنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد امریکہ میں نسلی امتیاز اور اس کی تاریخ پر بحث کا آغاز ہوا۔ بلیک لائیوز میٹر کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں امریکہ کی جامعات کے طلبہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔
اسی تحریک کے بعد امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ممالک میں غلاموں کی خریدو فروخت کا کاروبار کرنے والی تاریخی شخصیات کی یادگاروں کو ختم کرنے کی مہم کا بھی آغاز ہوا تھا۔
اس سے قبل 2014 اور 2018 میں بھی بلیک لائیو میٹرز کے تحت ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے تھے۔
مارچ 2003 میں امریکہ کے عراق پر حملے کے خلاف بھی امریکہ جامعات اور تعلیمی اداروں کے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا تھا اور بعدازں یہ اس کا دائرہ وسیع ہوا تو لاکھوں افراد نے ان مظاہروں میں شرکت کی۔
عراق پر حملے کے بعد نیشنل یوتھ اور اسٹوڈنٹ پیس کونسل نے بکس ناٹ بمز (بم نہیں کتابیں) کے عنوان سے مظاہرے شروع کیے اور کلاسوں کا بائیکاٹ کیا۔
کلاسوں کے بائیکاٹ اور مظاہرون میں امریکہ کی مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن، ماحولیاتی تحفظ کے گروپس اسر ینگ کمیونسٹ لیگ کے ارکان نے بھی حصہ لیا تھا۔
اس تحریر میں شامل بعض مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔