آج کی دنیا میں آپ کو اکثر جگہوں پر جدید اور عالی شان عمارتیں نظر آتی ہیں۔ کچھ کا طرز تعمیر اور جدت طرازی آپ کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ بڑے بڑے ڈیم، پل اور آسمان کو چھونے والی عمارتوں کو تعمیرات کی دنیا میں مہارت، ہنرمندی اور انجنیئرنگ کا کمال قرار دیا جاتا ہے، لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دور جدید کی تعمیرات اتنی پائیدار نہیں ہیں جتنی پرانے زمانے کی عمارتیں ہیں۔
آج کل عمارتوں کو مضبوطی سے جوڑنے کے لیے سیمنٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سیمنٹ بنیادی طور پر چونے کا پتھر اور مٹی کا آمیزہ ہے جسے انتہائی بلند درجہ حرارت پر گرم کرکے پیس لیا جاتا ہے۔اس آمیزے میں جب پانی شامل کیا جاتا ہے تووہ پیسٹ بن کر ایک کیمیائی عمل کے ذریعے آپس میں جڑ جاتا ہے۔ اس آمیزے میں پتھر، بجری، اینٹیں یا لوہا جو بھی ڈالا جائے، یہ پیسٹ انہیں آپس میں مضبوطی سے باندھ دیتا ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ لگ بھگ 50 سال کے بعد سیمنٹ کی طاقت گھٹنا شروع ہو جاتی ہےاور وہ زیادہ سے زیادہ 100 برس تک کارآمد رہتا ہے۔
آج کی جدید تعمیرات کی عمر 50 سے 100 برس ہے جب کہ قدیم دور میں بننے والی بہت سے عمارتیں آج بھی مضبوطی کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ ان میں کئی ایسی عمارتیں بھی ہیں جنہیں بنے ہوئے ہزار سے زیادہ برس ہو چکے ہیں۔
سائنس دان برسوں سے یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ آخر قدیم دور کی عمارتوں کی پائیداری اور مضبوطی کا راز کیا ہے۔جب کہ جس زمانے میں انہیں بنایا گیا تھا، اس وقت نہ تو سیمنٹ تھا اور نہ ہی ان کے پاس تعمیرات میں مدد دینے والی چیزیں اور آلات تھے۔آخر ان کے پاس ایسا کونساجادو تھا کہ ان کی تعمیر کردہ عمارتیں موسموں اور قدرتی تغیرو تبدل کے سامنےچٹان کی طرح کھڑی رہیں۔
آج جب ہم قدیم رومی دور میں تعمیر کی جانے والی عمارتوں، قدیم مایا تہذیب کے دیوتاؤں کے مجسموں ، حملہ آوروں کو روکنے کے لیے بنائی گئی دیوار چین اور دنیا کے دیگر حصوں کی قدیم تعمیرات کو دیکھتے ہیں تو یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر وہ پتھروں اور اینٹوں کو جوڑنے کے لیے کونسی چیزیں استعمال کرتے تھے جنہوں نے ان عمارتوں کو لافانی بنا دیا ہے۔
کیلی فورنیا یونیورسٹی کی لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری میں قدیم عمارتوں کی پائیداری پر کیے گئے ایک سائنسی تجزے سے معلوم ہوا کہ قدیم رومی دور کے معمار آتش فشاں کی راکھ کو چونے کے پتھر اور چٹانوں کے ٹکڑوں کے ساتھ ملا کر استعمال کرتے تھے۔ انہیں غالباً یہ معلوم تھا کہ پانی میں موجود نمکیات عمارتوں کی شکست و ریخت کا سبب بنتے ہیں جس کا توڑ انہوں نے چونے کے پتھر اور آتش فشاں کی راکھ میں ڈھونڈ لیا تھا۔
قدیم مصری تہذیب میں دو طرح سے عمارتیں تعمیر کی جاتی تھیں۔ عام رہائشی عمارتوں کے لیے مٹی میں بھوسا یا تنکے اور پانی شامل کر کے ان کی اینٹیں بنا لی جاتی تھیں اور دھوپ میں خشک کر کے ان سے عمارتیں بنائی جاتی تھیں۔ جب کہ مقبروں کے لیے پتھر استعمال کیے جاتے تھے۔اہرام میں تقریباً 55 لاکھ ٹن چونے کا پتھر اور لاکھوں ٹن گرینائٹ اور دوسرے پتھر تقریباً 800 کلومیٹر کے فاصلے سے اس صحرائی علاقے میں لائے گئے تھے۔ان میں سے ہر پتھر کا وزن ڈھائی ٹن کے مساوی تھا۔ تین ہزار سال پہلے اہرام جیسے عظیم اور بلند مقبروں کی تعمیر انسانی عقل کو حیران کر دیتی ہے۔ ان پتھروں کو جوڑنے کے لیے زیادہ تر چونا اور مٹی کے آمیزے کا پلستر استعمال کیا گیا۔
اہرام مصر کی طرح دیوار چین بھی حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ اس دیوار کے پتھروں کو جوڑنے کے لیے زیادہ تر چپکنے والے چاول، چونے کا پتھر اور ریت کا آمیزہ استعمال کیا گیا ہے۔یہ آمیزہ بنانے کے لیے چاولوں کو ابال کر اس کا پیسٹ بنایا جاتا تھا اور پھر اس میں ریت اور چونا ملا دیا جاتا تھا۔
پاکستان میں وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے کھنڈرات موہنجو داڑو اور ہڑپہ میں موجود ہیں۔ تین ہزار سال سے زیادہ پرانی اس تہذیب میں تعمیراتی ماہرین نے مٹی کے گارے سے باریک پختہ اینٹیں بنانے کا فن سیکھ لیا تھا اور وہ انہیں اس طرح جوڑتے تھے کہ ان میں تالہ سا لگ جاتا تھا۔
بھارت کے ویلور انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تعمیرات کے ایک محقق سلواراج کہتے ہیں کہ قدیم دور میں بھارت میں جو تعمیرات ہوئیں ان میں مختلف خصوصیات کا مقامی مواد استعمال کیا گیا۔مرطوب علاقوں میں معماروں نے مقامی جڑی بوٹیاں استعمال کیں جو نمی کو جذب کر کے عمارت کو شکست و ریخت سے محفوظ رکھتی تھیں۔
وہ عمارتوں کی تعمیر میں گڑ بھی استعمال کرتے تھے جس کا فائدہ یہ تھا کہ گڑ عمارت کو نقصان پہنچانے والے نمکیات کو بے اثر کر دیتا تھا۔ اسی طرح جن علاقوں میں زلزلے کثرت سے آتے تھے وہاں کے معمار چاول کی بھوسی کی بنی ہوئی اینٹیں استعمال کرتے تھے جو وزن میں بہت ہلکی ہوتی تھیں اور جانی نقصان کم کرنے میں مدد دیتی تھیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ زمانہ قدیم کے معماروں کو اپنے علاقے کی مٹی اور آب و ہوا کا پتہ تھا۔ وہ انہی کی مناسبت سے مقامی طور پر دستیاب چیزوں سے عمارتیں بناتے تھے۔
ماہرین نے جب سائنسی بنیادوں پر قدیم عمارتوں کی مضبوطی پر تحقیق کی تو انہیں پتا چلا کہ اس دور کے انجنیئر عمارتیں بنانے میں استعمال ہونے والے پلستر میں درختوں کی چھال، آتش فشاں کی راکھ، چاول، بیئر اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ گوبر اور پیشاب تک استعمال کرتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ چونے کے پتھر اور جلی ہوئی مٹی اور آتش فشاں کی راکھ کے پلستر سے بنی ہوئی عمارتیں تو ہزاروں برسوں سے کھڑی ہیں جب کہ سیمنٹ سے بنی عمارتوں کی عمر سو برس سے زیادہ کیوں نہیں ہوتی؟ سائنس دان اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ سیمنٹ میں چونے کے پتھر اور مٹی کو ملا کر یکجان کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ قدیم تعمیرات میں چونے کا پتھر، آتش فشاں کی راکھ اور ریت وغیرہ سے پوری طرح جڑا ہوا نہیں ہو تا تھا اور کہیں کہیں چونے کا پتھر الگ حیثیت بھی قائم رکھتا تھا۔ چنانچہ جب وقت کے ساتھ اس آمیزے میں کہیں ہلکی دراڑ آتی ہے اور پانی اس کے اندر داخل ہوتا ہے تو اس آمیزے یا پلستر میں دوبارہ کیمیائی عمل شروع ہو جاتا تھا اور وہ دوبارہ مضبوطی سے جڑ کر دراڑ بند کر دیتاہے۔
ہنڈوراس میں ہزار سال سے زیادہ پرانی تہذیب کی عبادت گاہیں اور دیوتاؤں کے مجسمےمحفوظ حالت میں موجود ہیں، جب کہ مرطوب آب و ہوا میں عمارتیں جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ قدیم عمارتوں پر تحقیق کرنے والے ایک سائنس دان روڈریگوز ناوارو کہتے ہیں کہ مایا دور کی عمارتوں کی مضبوطی کا راز یہ ہے کہ ان کے پلستر میں دو مقامی درختوں چوکم اور جیوٹے کا رس بھی شامل کیا گیا ہے، جو پلستر کے آمیزے میں دیگر اجزا کے مالیکولز کے ساتھ مل کر ان کا حصہ بن گیا ہے اور وہ مرطوب آب و ہوا کے خلاف ڈھال کا کام کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قدیم عمارتوں کے پلستر میں صرف درختوں کے رس ہی شامل نہیں کیے جاتےتھے بلکہ ان کے تجزیے سے پتا چلا ہے کہ ان میں دودھ، دہی، پنیر، بیئر اور حتیٰ کہ پیشاب تک کی آمیزش ہے۔ یہ چیزیں پلستر میں شامل دیگر اجزا کے مالیکولز کے ساتھ کیمیائی طور پر مل کر اس کی مضبوطی کو بڑھا دیتی تھیں۔
قدیم دور کی عموماً عمارتیں عموماً زیادہ اونچی نہیں ہوتی تھیں اور زیادہ تر تین منزلہ عمارتیں بنائی جاتی تھیں۔ لیکن آج کے زمانے میں آسمان سے باتیں کرنے والی عمارتیں اٹھائی جاتی ہیں۔ فرق یہ ہے ماضی کی عمارتوں کی بلندی کم اور عمر زیادہ ہوتی تھی جب کہ جدید عمارتوں کی بلندی زیادہ اور عمر تھوڑی ہوتی ہے۔
اب تعمیراتی سائنس کی دنیا میں قدیم دور کی عمارتوں کی پائیداری کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے میٹریل تیار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جو فطرت کے زیادہ قریب ہو۔ کیونکہ فطرت ان چیزوں کو تحفظ دیتی ہے جو اس کا حصہ ہوں۔
شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ جدید تعمیرات گلوبل وارمنگ کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھانے میں ایک تہائی کی ذمہ داری جدید تعمیرات پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ ان عمارتی ڈھانچوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والا میٹریل جن فیکٹریوں میں تیار کیا جاتا ہے، ان کا کاربن گیسوں کے اخراج میں 33 فی صد سے زیادہ حصہ ہے۔ صرف سیمنٹ کو ہی لے لیں۔ عالمی سطح پر کاربن گیسوں کے کل اخراج کا 7 فی صد حصہ سیمنٹ بنانے والے کارخانوں سے آتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اپنی تعمیرات میں طویل پائیداری اور زمین کو گرم ہونے سے بچانے کے لیے ہمیں فطرت کے قریب تر آنا پڑے گا۔اسی میں ہماری سہولت اور بقا ہے۔