امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے شمال مشرقی کنارے پر واقع سینٹ آگسٹین ملک کا قدیم ترین شہر ہے۔ اس شہر کے حوالےسے کہا جاتا ہے کہ اسے اسپین سے آنے والوں نے آباد کیا تھا۔
یہ شہر ریاست میساچوسٹس کے پلائی ماؤتھ راک سے بھی قبل تعمیر کیا گیا تھا جب کہ ریاست ورجینیا میں انگریزوں کی جانب سے جیمزٹاؤن میں آبادکاری سے بھی 42 برس قبل اسے قائم کیا گیا تھا۔
یہ شہر اگرچہ غیر مقامی افراد کی جانب سے تعمیر کردہ قدیم ترین امریکی شہر ہے لیکن اس کا ذکر تاریخ میں نہیں ملتا۔
سینٹ آگسٹین کی مئیر نینسی اسکائیس کلائین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ اس شہر کا ہسپانوی نوآبادیات سے تعلق ہو سکتا ہے۔
تاریخ کے پروفیسر تھامس گراہم اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں۔
پروفیسر تھامس گراہم کہتے ہیں کہ لوگ زیادہ تر انگریز نو آبادیات کا ذکر کرتے ہیں اور سینٹ آگسٹین کافی عرصے تک ہسپانوی نو آبادیات کا حصہ رہا ہے۔
ان کے مطابق سینٹ آگسٹین کو اپنے قدیم ترین شہر کے رتبے سے محروم رکھا گیا ہے لیکن اب تبدیلی آ رہی ہے اور لوگوں کی سوچ کشادہ ہو رہی ہے۔
سینٹ آگسٹین کا اقتدار 1565 سے لے کر 1821 تک اسپین کے ہاتھ میں رہا ہے۔
اس دوران 1763 سے لے کر 1783 کے محض 20 برس تک اس پر انگریزوں نے راج کیا تھا۔ 1821 میں یہ شہر امریکہ کا حصہ بنا جب اسپین نے فلوریڈا کا علاقہ بھی امریکہ کے حوالے کیا تھا۔
آج سینٹ آگسٹین 10.7 مربع میل کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کی آبادی لگ بھگ 15 ہزار ہے۔
یہ شہر اگرچہ طویل عرصے تک ہسپانوی نوآبادیات رہا ہے لیکن اس پر ہسپانوی چھاپ نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ اکثر قدیم عمارتیں ختم ہو چکی ہیں۔
پروفیسر تھامس گراہم کے مطابق شہر میں ایک پرانی عمارت جب کہ سڑکوںاور گلیوں کی تعمیر ہسپانوی طرز پر بنائی گئی ہے۔
شہر کی قدیم ترین عمارت کاسٹیلو ڈی سان مارکوز کا قلعہ ہے جو ہسپانوی حکمرانوں نے انگریزوں کے حملوں کے دفاع میں تعمیر کیا تھا۔ یہ قلعہ اب تاریخی عمارت کے طور پر محفوظ ہے۔
نیشنل پارکس سروسز کے کرس لیویریٹ کے مطابق یہ قلعہ تمام شہر کو محفوظ بنانے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت جو بھی اس قلعے اور سینٹ آگسٹین پر حکمرانی کرتا تھا، فلوریڈا کا علاقہ اس کے زیرِ تسلط آتا تھا۔
کرس کے بقول پرانے ریکارڈز سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی شہر پر حملہ ہوتا تھا، شہر کے باسی قلعے میں پناہ لیتے تھے۔
یہ شہر ایک عرصے تک رئیس امریکیوں کی بھی آماجگاہ بنا رہا جو ملک کے شمالی علاقوں کی شدید سردی سے بچنے کے لیے یہاں وقت گزارنے آتے تھے۔
سن 1870 کے دوران ایک رئیس امریکی صنعت کار ہنری فلاگلر نے یہاں تین اعلیٰ درجے کے ہوٹل تعمیر کرائے تھے۔ ان میں ہوٹل ڈی لیون، ہوٹل الکازار اور ہوٹل کوردووا شامل ہیں۔
پروفیسر تھامس گراہم کا کہنا ہے کہ رئیس امریکیوں کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ سینٹ آگسٹین میں جنوری میں بھی گرم دھوپ موجود ہوتی ہے جب کہ نیویارک کا موسم اس سے یکسر مختلف ہے۔
رئیس امریکیوں کا یہاں آنا بھی 20 برس تک ہی محدود رہا کیوں کہ انہیں پتا لگ گیا کہ فلوریڈا کے ہی علاقے پام بیچ کا موسم اس شہر سے بھی بہتر ہے۔
اب بھی اس شہر کی آمدن کا زیادہ دار و مدار سیاحت پر ہے۔ جولائی 2021 سے جون 2022 کے دوران اس شہر میں 30 لاکھ سے زائد سیاح آئے۔ان سیاحوں میں زیادہ تر صرف ایک دن ہی کے لیے یہاں آئے۔ شہر کی انتظامیہ ان سیاحوں کو زیادہ دیر یہاں روکنے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔
شہر کی انتظامیہ کا خیال ہے کہ اگر سینٹ آگسٹین کے قدیم ترین امریکی شہر ہونے کے رتبے کو عوام تک پہنچایا جائے تو مزید سیاحوں کو یہاں لایا جا سکتا ہے۔