پاکستان میں آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کا ٹرائل کیسے ہوتا ہے؟

پاکستان کی فوج کی جانب سے عسکری تنصیبات پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت چلانے کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بعض طبقات اس فیصلے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں جب کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سویلینز کے لیے پہلے ہی کئی قوانین ہیں اور کسی بہت بڑے الزام کی صورت میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں بھی موجود ہیں۔ لیکن فوجی عدالتوں سے سزاؤں کی صورت میں انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا خدشہ ہے۔

خیال رہے کہ نو مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ مشتعل مظاہرین نے لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ کے بعد اسے آگ لگا دی تھی۔ پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) سمیت دیگر شہروں میں بھی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا فیصلہ پیر کو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی سربراہی میں کور کمانڈرز کانفرنس میں کیا گیا۔


آرمی ایکٹ ہے کیا اور کس پر لاگو ہوتا ہے؟

پاکستان کے آرمی ایکٹ 1952 کے تحت اس قانون کا اطلاق صرف فوج سے تعلق رکھنے والے افراد پر ہوتاہے۔ لیکن بعض مواقع پر اس کا اطلاق سویلینز پر بھی ہوتا ہے۔پاکستان آرمی کے جج ایڈووکیٹ جنرل جسے عرف عام میں 'جیگ برانچ' کہا جاتا ہے وہ اس صورتِ حال میں ٹرائل کرتے ہیں۔

اس قانون کے تحت پاکستانی فوج کے خلاف جنگ کرنے والوں ،سول و فوجی تنصیبات پرحملہ کرنے والے افراد، بیرون ملک اور اندرون ملک سے دہشت کا ماحول پیدا کرنےوالوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

'سویلین عدالتوں کی موجودگی میں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے نہیں بننے چاہئیں'

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن ایمان زینب مزاری کہتی ہیں کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2ون ڈی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ سویلین افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے جو ضروریات ہیں وہ بہت محدود ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب کسی شخص کے خلاف کیس ہو اور انہیں چارج کیا جائے تو آرمی ایکٹ رولز 19 اور 20 کے مطابق انہیں چارج کیا جائے گا۔

ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ "میں سویلین کے خلاف اس ایکٹ کے استعمال کی مخالف ہوں کیوں کہ آرمی ایکٹ میں بنائے گئے تمام تر قوانین فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں چار قسم کے کورٹ مارشل کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ اہم فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ہوتا ہے اور اس کا اطلاق امن کے زمانے میں نہیں ہوتا ۔ جیگ برانچ کے ماتحت فوجی عدالتیں ان کا ٹرائل کریں گی اور انہیں سزائیں دے سکیں گی۔

ان کیسز میں سزا کے بعد سویلین عدالتوں میں اپیل کے حق کے حوالے سے ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ ایک بہت بڑا ایشو یہ ہے کہ کورٹ مارشل کے آرڈر کو چیلنج کرنے کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔ اس میں اپیل نہیں بلکہ ایک طرح سے ریویو ہوگا۔

SEE ALSO: پاکستان میں پرتشدد مظاہرے؛ 'معاشی مشکلات سے عوام کا غصہ بڑھ رہا ہے'

ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ "سویلین عدالتوں کی موجودگی میں فوجی عدالتوں سے کورٹ مارشل کرنے سے لوگوں کا پاکستان کے عدالتی نظام سے اعتبار ختم ہوگا اور اگر ایسا ہی کرنا ہے تو میرے خیال میں آئین کو ختم کردینا چاہیے اور پھر جیسے مرضی سلوک کیا جائے۔"

سینئر وکیل کرنل(ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ آرمی ایکٹ کے مطابق ٹرائل ہو سکتا ہے اور ٹرائل کے بعد ہونے والی سزاؤں پر ان کے خلاف آرمی کورٹ آف اپیل میں جانا ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کراچی میں جب ملٹری کورٹس بنیں تھیں تو کئی افراد کا ٹرائل ہوا تھا۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں 25 سویلین کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہوا اور ان میں سے تین کو سزائے موت بھی دی گئی۔

اُن کے بقول جن کیسز میں موت کی سزا دی گئی وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق تھے۔ ان کیسز میں ہائی کورٹس میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں جو ابھی بھی چل رہی ہیں۔

کرنل (ر) انعام کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت یہ ٹرائل اوپن ہوگا یا انہیں خفیہ رکھا جائے گا اس بارے میں ایس او پی جاری کیے جائیں گے لیکن اب تک صرف پاکستان فوج کا بیان سامنے آیا ہے۔

اُن کے بقول آئین کے آرٹیکل 10 اے کے مطابق ہر شخص کو فیئر ٹرائل کا حق حاصل ہے اور اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اس کو منصفانہ ٹرائل نہیں مل رہا تو وہ کسی بھی بڑی عدالت میں درخواست دائر کرسکتا ہے۔

کیا عمران خان کے خلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے؟

کرنل (ر) انعام الرحیم کے مطابق اس کیس میں عمران خان کو بھی شریکِ جرم سمجھا جاسکتا ہے اور ان کا ٹرائل بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ اس میں جرم کی حوصلہ افزائی جیسے جرائم شامل ہیں۔

اُن کے بقول سپریم کورٹ سے رہائی کے بعد اگر عمران خان ان تمام واقعات کی مذمت کرتے اور ان سے لاتعلقی اختیار کرتے تو وہ ان الزامات سے بچ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ان تمام باتوں سے انکار کیا ہے۔ لہذا اس صورتِ حال میں ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی کے داماد علی افضل ساہی کے خلاف بھی فیصل آباد میں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے دفتر پر حملے کا الزام ہے اور ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے لہذا ان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔

انسانی حقوق پر کام کرنے والی سماجی کارکن زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ "ہم سویلین افراد کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے مطابق کرنے کے مخالف ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلے ہی ایسے واقعات میں ٹرائل کرنے کے لیے سویلین عدالتیں موجود ہیں اور اگر کسی شخص کے خلاف سنگین الزامات ہوں تو اس کے لیے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں موجود ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

فوجی تنصیبات پر حملے: کیا 'ریڈ لائن' کراس ہو گئی؟

اُن کے بقول" ہم سمجھتے ہیں کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہونے سے انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا خدشہ ہے۔"

زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ لاگو کرنے سے پاکستان کے عام شہریوں میں تشویش پیدا ہو گی اور ہماری نظر میں اس طرح کے اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اُن کے بقول ہم آرمی اور سویلین تنصیبات پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں مگر سویلین عدالتوں سے انصاف حاصل ہوسکتا ہے اور ان حملوں کے ذمے داران کو سزا دلوائی جاسکتی ہے۔