"میری شکل دیکھ لو عاصم منیر، یہ چوکی میں نے جلائی ہے۔ میں 72 سال کا (شخص) ملک سے محبت کرتا تھا۔ پاکستان کی فوج سے محبت کرتا تھا لیکن یہ میں نے جلائی ہے۔ یہ باجوہ کی باقیات ، اس کو سمجھ لو یہ وارننگ ہے۔"
غصے سے بھرے یہ الفاظ کراچی کے ایک سفید باریش رہائشی عبد الحمید کے تھے جن کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
کراچی کی مصروف تین شاہراہ شارع فیصل پر بنائی گئی اس ویڈیو میں عبدالحمید کے عقب میں رینجرز کی جلتی ہوئی چوکی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ نو مئی کو تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کے دوران رینجرز کی چوکی کو آگ لگائی گئی تھی۔
اس طرح کےپرتشدد مظاہرے پہلی مرتبہ نہیں ہوئے بلکہ ملک میں سڑکیں بند ہونا، بسوں کو جلانا، فائرنگ سے ہلاکتیں ہونا ،یہ واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں کو پہلے بھی کئی مرتبہ جلایا گیا ہے۔ لیکن پاکستان فوج کے راولپنڈی میں واقع ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)اور کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے مناظر کی ملکی تاریخ میں اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان میں پائی جانے والی بے چینی، غصے اور منفی ردِعمل کا باعث کیوں بن رہی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے وائس آف امریکہ نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے بات کی ہے۔
'موجودہ حالات برسوں سے اداروں پر اعتماد کم ہونے کا شاخسانہ ہیں'
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں واقع یونیورسٹی آف پونچھ راولاکوٹ کے وائس چانسلر اور سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد زکریا ذاکر کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کو سمجھنے کے لیےیہ جاننا ضروری ہے کہ برسوں سے عام شہری کے ملکی اداروں پر اعتماد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
ان کے بقول جب اعتماد میں کمی آتی جائے تو ادارے کمزوری کی راہ پرچلے جاتے ہیں۔ خواہ وہ سیکیورٹی کا ادارہ ہو یا عدلیہ، مقننہ ہو یا انتظامیہ۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زکریا نے کہا کہ اداروں پر عوام کا اعتماد ایک دم کم نہیں ہوا بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1955 میں جسٹس منیر نے جو فیصلہ دیا لوگوں کو اس پر دھچکا تو لگا لیکن کسی نے اس وقت کی چیف کورٹ پر انگلیاں نہیں اٹھائیں۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کو 1979 میں جب پھانسی کی سزا دی گئی تو ان کے بقول سب کو معلوم تھا کہ یہ انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف فیصلہ ہے۔ یہ قطعی ناانصافی پر مبنی ہے لیکن پھر بھی عوامی سطح پر احتجاج نہیں ہوا۔
"بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے بعد وقت گزرتا گیا اور عدلیہ کا اعتماد عوام پر قائم رہنے کے بجائے آہستہ آہستہ کم ہوتا چلا گیا۔"
انہوں نے مثال دی کہ جس طرح دیمک آہستہ آہستہ بڑے اور تناور درخت کو کھا جاتی ہے یہی کچھ یہاں بھی ہوا اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بہت کم لوگ عدلیہ پر اعتماد کو تیار ہیں۔
ان کے بقول صرف عدلیہ ہی کا نہیں بلکہ ملک کے تمام اداروں کا حال یہی ہورہا ہے۔ دفاعی اداروں میں لوگوں کی من مانیاں، مقننہ کی جانب سے عوام کے بجائے خواص کے لیے قانون سازی میں زیادہ دلچسپی اور کرپشن کی عام ہوتی کہانیاں، انتظامیہ کی نااہلی اور سیاست زدہ ہوجانے کے بعد پاکستان کے حالات اس نہج کو پہنچے ہیں۔
ڈاکٹر زکریا نے کہا کہ جب ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی کے بجائے مصلحت اور مفادات کے اسیر ہوجائیں تو ایسے اداروں کی اہمیت کم ہونے لگتی ہے اور ان پر اعتماد اٹھتا چلا جاتا ہے۔اس کے بعد لوگ پہلے دبے الفا ظ میں اور پھر واشگاف الفا ظ میں اداروں کے خلاف بولتے ہیں اور پھر نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہم اس وقت پاکستان کے حالات میں تشدد کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
'عدلیہ پر عوام کا اعتبار تیزی سے کم ہو رہا ہے'
اسی طرح کے خیالات کا اظہار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور کالم نگار شہاب اوستو ایڈووکیٹ نے بھی کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کے لیے انصاف کی فراہمی کے ساتھ اہم چیز اس پر عوام کا اعتماد بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز چاہے قانون کے تحت ہی فیصلہ دیں لیکن اگر اس کا انداز ایسا ہو کہ لوگوں کا اعتماد مجروح ہو تو ان کی اخلاقی حاکمیت متاثر ہوتی ہے اور اس اخلاقی اتھارٹی کی اہمیت قانونی اور آئینی اتھارٹی سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
شہاب اوستو کے بقول عدلیہ سے یہ تاثر آنا کہ وہ کسی خاص جماعت کی طرف ہے تو اس سے لوگوں پر عدلیہ کا اعتماد کیسے بحال ہوسکتا ہے؟ ملک میں قانونی، آئینی، سیاسی یا دو طرفہ جھگڑے کے حل کا آخری ادارہ سپریم کورٹ ہے۔
شہاب اوستو کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر بٹے ہوئے معاشرے میں سپریم کورٹ میں بھی واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ ججز کی سوچ انصاف کے بارے میں مکمل طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہے۔ ٹکراؤ کو ختم کرنے والا ادارہ اس وقت خود ٹکراؤ پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے اور یہ سب ایک روز میں نہیں ہوا بلکہ اس نہج تک پہنچنے میں برسوں لگے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انصاف کے اصول کسی کے لیےکچھ اور دوسرے کے لیے کچھ ہوں تو پھر یہ افسوسناک نتیجہ ہی نکلتا ہے کہ عدلیہ کے خلاف پارلیمان میں قراردادیں پاس ہورہی ہیں اور عدلیہ کے باہر لوگ ڈنڈے لیےکھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عام آدمی تو انصاف کے لیےدھکے کھارہا ہے۔ نظام انصاف میں کوئی بہتری نہیں لائی گئی۔ لیکن بعض شخصیات اور وکیلوں کو فوری انصاف ملے اور خفیہ ایجنسیوں کے دباؤ پر من چاہے فیصلے دیےجائیں تو پھر انصاف کا نظام کیسے چل سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بے چینی، غصے اور نفرت میں تبدیل ہورہی ہے۔
’لوگوں کا غصہ اور بے چینی کہیں تو نکلے گی‘
جامعہ کراچی کے شعبہ کرمنالوجی کی چیئرپرسن ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فرح اقبال کا کہنا تھا کہ تشدد، ہنگامے اور جلاو گھیراؤ کی وجوہات بیان کرنے کے لیے پس منظر جاننا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے پاکستانی قوم ایک افراتفری کی صورِتِ حال میں رہ رہی ہے۔ اب یہ صورتِ حال اپنے عروج پر معلوم ہوتی ہے۔ ایک جانب معلومات کا سیلاب ہے۔ ان کے بقول ہم تاریخی طور پر جذباتی قوم واقع ہوئے ہیں اور اسی لیے ہمیں مس گائیڈ کرنا بھی آسان ہے۔ یہی وہ بڑی وجوہات ہیں جس سے لوگوں کو منفی ردِعمل کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاشی پہلوؤں کے ساتھ انسان کی بہت سی دبی ہوئی خواہشات بھی ہوتی ہیں اور جب ان کی تکمیل کے جائز راستے بند کیے جائیں تو پھر اس کا غصہ کسی اور چیز پر نکالا جاتا ہے۔
ان کے بقول جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں تحفظ نہیں مل پا رہا، معاشی ضروریات پوری نہیں کی جا رہیں۔ غیر یقینی بڑھتی جا رہی ہے تو ایسے میں کوئی بھی معلومات کو جواز بنا کر اس کا ردِ عمل نکالا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فرح اقبال کا مزید کہنا تھا کہ ہم ایک ایسے کلچر میں زندہ ہیں جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول پروان چڑھ چکا ہے اور جیسے ہی ہمیں یہ موقع ملتا ہے کہ ہم اس طاقت ور سے بدلا لے سکیں تو ہم املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ احساس محرومی کے ساتھ بدعنوانی کی ان گنت کہانیاں اور پھر طاقت ور سے مرعوب ہوجانا بھی لوگوں کو مایوسی کی جانب لے کر جاتا ہے۔ دوسری جانب معاشرے میں مذاکرے، مباحثے اور بات چیت کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ لوگ اپنے اختلافات کا اظہار نہیں کرسکتے۔ نہ صرف یہ بلکہ تفریحی سرگرمیاں موجود نہیں ہیں۔ کھیل کے میدانوں پر قبضے ہوگئے۔ مثبت سرگرمیاں معاشرے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تو ایسے میں لوگوں کا غصہ اور بے چینی کہیں تو نکلیں گے۔
'پرتشدد واقعات تباہ حال معیشت کے لیے زہر قاتل ہیں'
معاشیات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی حارث ضمیر کا کہنا ہے کہ جب ملک دیوالیہ ہونےکے دوراہے پر کھڑا ہو، اس بات کی امید بھی نہ ہو کہ بیرونی قرض اتارنے کے لیے ڈالرز کہاں سے آئیں گے۔مہنگائی نے لوگوں کو مکمل جکڑا ہوا ہو تو ایسے میں پرتشدد ہنگاموں، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانےسے اور کاروبار بند کرنے سے معیشت کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔
ان کے بقول اس سب سے اٹھتی ہوئی بے یقینی کی فضا کاروبار کے لیے زہرِ قاتل کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ان حالات کے بعد صرف انٹرنیٹ بند کرنے سے کمپنیوں کو ڈھائی ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے جب کہ حکومت کو ٹیکسز کی مد میں 75 کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا۔
حارث ضمیر کا کہنا تھا کہ یہ نقصان اُس حکومت کو ہو رہا ہے جسے اس سال پہلے ہی محصولات میں 400 ارب روپے سے زائد کی کمی کا سامنا ہے۔
ان کے مطابق نہ صرف یہ بلکہ سیاسی عدم استحکام نے آن لائن کاروبار کرنے والوں کو کروڑوں کی آمدنی سے محروم رکھا ہے۔ اس کے علاوہ روپیہ کےمسلسل گراوٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا تاریخی طوفان آیا ہوا ہے۔عام آدمی کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے جب کہ بڑے بڑے سرمایہ کار اور تاجر بھی پریشان ہیں۔
موجودہ صورتِ حال میں ناقابلِ تلافی نقصان کا اندیشہ
کراچی چیمبر آف کامرس سے وابستہ تاجروں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ موجودہ صورتِ حال ملک میں انارکی کے فروغ کا باعث بنے گی اور اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
اپنے بیان میں تاجروں کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال نے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے تشخص کو بہت خراب کیا ہے اور ملک کے بارے میں جاری منفی خبریں برآمدات اور ملک سے متعلق تاثر کو انتہائی نچلی سطح پر لے جا رہی ہیں جسے طویل عرصے تک بہتر بنانا ممکن نہیں ہوگا۔
تاجروں نے تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر حالات کو باہمی اتفاق کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرنے کی بھی پیشکش کی کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال بہت خطرناک ہے اور مزید بگاڑ نہ صرف تاجر برادری بلکہ پورے ملک کے لیےناقابل واپسی کی صورتِ حال پیدا کردے گا۔