نفیس انصاری ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں اور انہیں بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے رواں برس 'مودی متر' کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس فہرست میں شامل افراد وزیرِ اعظم نریندر مودی کی آئندہ برس انتخابات میں کامیابی کے لیے رضاکارانہ خدمات پیش کر رہے ہیں۔
'مودی متر' کا مطلب وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دوست کے ہیں اور بی جے پی نے 25 ہزار مسلمانوں پر مشتمل یہ گروپ تشکیل دیا ہے جس کے ارکان مسلم کمیونٹی میں وزیرِ اعظم مودی اور ان کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں۔
نفیس انصاری بھی 'مودی متر' میں شامل ہیں جو لوگوں سے ملاقاتیں کر کے مسلمانوں کے لیے وزیرِ اعظم مودی اور ان کی جماعت کے فلاحی منصوبوں کے بارے میں مہم چلا رہے ہیں۔
نفیس انصاری لوگوں سے ملاقاتوں میں بی جے پی کی پالیسیوں کے نتیجے میں تمام اقلیتی کمیونٹیز کو ملنے والے فوائد کا پرچار کرتے ہیں اور وزیرِ اعظم مودی کی قیادت میں عالمی سطح پر بھارت کے بلند ہوتے 'اسٹیٹس' پر بات کرتے ہیں۔
حکمراں جماعت کے مخالفین الزام عائد کرتے ہیں کہ بی جے پی مسلمانوں کے خلاف ہے جب کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ کو تقسیم کر سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس نے پانچ مودی متر اور بی جے پی کے چھ ذمے داروں سے بات کی ہے جو آئندہ انتخابات کی حکمتِ عملی بنانے کے ذمے دار ہیں۔
بی جے پی کے اقلیتی ونگ کے سربراہ جمال صدیقی کے مطابق ان کی جماعت تعلیم کے شعبے سے وابستہ شخصیات، علما اور ریٹائرڈ ملازمین کی تلاش میں ہے جو خوشی سے وزیرِ اعظم مودی کی معاونت کریں۔
SEE ALSO: پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات: 2024 سے قبل مودی اور راہل گاندھی کی مقبولیت کا امتحانبی جے پی کے اقلیتی ونگ کے ترجمان یاسر جیلانی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے گزشتہ دو عام انتخابات میں مسلمانوں کا نو فی صد ووٹ حاصل کیا تھا اور اگلے سال ہونے والے الیکشن کے لیے یہ ہدف 16 سے 17 فی صد ہے۔
بی جے پی کی انتخابی حکمتِ عملی بنانے والے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی جماعت کی تمام تر توجہ ایوانِ زیریں لوک سبھا کی 543 میں سے ان 65 نشستوں پر ہے جہاں مسلم آبادی 30 فی صد ہے۔
البتہ بی جے پی نے یہ نہیں بتایا کہ لوک سبھا کی وہ کون سی نشستیں ہیں جنہیں کامیابی کے لیے وہ اپنا ہدف بنانا چاہتی ہے۔ تاہم بی جے پی کے مودی متروں نے پسماندہ مسلم علاقوں میں بی جے پی کے پیغامات پہنچانا شروع کر دیے ہیں۔
مودی متر کام کیسے کرتے ہیں؟
نفیس انصاری کا تعلق بھی پسماندہ علاقے سے ہے اور وہ اپنے علاقے میں بی جے پی کی فلاحی اسکیموں کے بارےمیں ہر کسی کو بتا رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے دوستوں اور قریبی علاقے کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے حکومت کے نئے پروگرام سے متعلق آگاہ کیا کہ بی جے پی کی ریاستی حکومت ضرورت مند خواتین کو ماہانہ 1250 روپے جب کہ مرکزی حکومت ڈیڑھ لاکھ روپے کی ہاؤسنگ سبسڈی فراہم کرے گی۔
واضح رہے کہ بھارت میں آئندہ برس مئی میں عام انتخابات ہونا ہیں جس کے لیے تمام جماعتوں نے ہی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ عام انتخابات سے قبل بھارت کی پانچ ریاستوں میں رواں ماہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل 'سیمی فائنل' کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
عزیر حسین بھی 'مودی متر' ہیں جن کا تعلق مغربی بنگال سے ہے۔ پیشے کے اعتبار سے عزیز ایک تاجر ہیں جو بی جے پی کے معیشت پر مبنی بیانیے کو لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔
عزیر کہتے ہیں کہ ماضی کی حکومت کے مقابلے میں وزیرِ اعظم مودی کی حکومت کی جانب سے کرائے گئے کاموں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور انہی کاموں سے متاثر ہو کر وہ بی جے پی کی طرف راغب ہوئے ہیں۔
عزیز کے حلقے سے تعلق رکھنے والے مکین قاسم نے 'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت میں مسلمان وزیرِ اعظم مودی کی جماعت کو پسند نہیں کرتے لیکن عزیر حسین کہتے ہیں کہ ہمیں کم از کم یہ سننا چاہیے کہ بی جے پی ہمیں کیا دے رہی ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعت کانگریس نے بی جے پی کے مسلم کمیونٹی کو انتخابات کے لیے ٹارگٹ کرنے پر تنقید کی ہے۔
کانگریس کے سینئر رکن اسمبلی کے سی وینوگ پال کہتے ہیں بی جے پی نے کبھی مسلم کمیونٹی کا احترام نہیں کیا اور نہ ہی اس کے تحفظات سنے ہیں۔ البتہ اس کمیونٹی کو ایک نظام کے تحت پسماندہ ضرور رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات مذہب اور شناخت کی بنیاد پر نہیں بلکہ معیشت اور ترقیاتی کاموں جیسے مسائل پر لڑنا چاہیے۔
SEE ALSO: بھارت میں خواتین کی نشستیں بڑھانے کا بل؛ اپوزیشن کی حمایت کے باوجود تنقیدبھارت میں حالیہ عرصے کے دوران ہندو مسلم فسادات کے کئی واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ تاہم حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں کم ہو گئی ہیں لیکن کشیدگی برقرار ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کے لیے بی جے پی نے فوری طور پر طاقت کا استعمال کیا ہے۔
کئی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ بی جے پی کا نعرہ لگانے والے ہندو ایکٹوسٹس کی وجہ سے خوف کے ماحول میں رہ رہتے ہیں۔
نفیس انصاری بھی کہتے ہیں کہ شدت پسند ہر جگہ موجود ہیں، بی جے پی کو شدت پسند کارکنوں پر قابو پانا ہو گا جنہوں نے پارٹی کے تشخص کو نقصان پہنچایا ہے اور وہ اب بھی جماعت میں موجود ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مسلم سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہر اور دہلی کے تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹڈی آف ڈویلپنگ سوسائٹیز سے وابستہ تجزیہ کار ہلال احمد کہتے ہیں بی جے پی آئندہ انتخابات میں مسلم کمیونٹی کا ووٹ لینا چاہتی ہے جس کے لیے وہ دہری حکمتِ عملی اختیار کر رہی ہے۔
ان کے بقول بی جے پی ایک طرف مسلمانوں کو 'شیطان' کے طور پر پیش کر رہی ہے تو دوسری جانب بعض مسلم آبادی کو نوازا جا رہا ہے۔
احمد بی جے پی کی سیاسی حکمتِ عملی کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں مسلم مردوں کو ایک برائی کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا۔ لیکن مسلم خواتین کے بارے میں بی جے پی نرم گوشے کا اظہار کرتی رہے گی۔
اپوزیشن جماعت سماج وادی پارٹی مسلم ووٹرز میں مقبول ہے جس کے ترجمان گھنشیام تیواری کہتے ہیں بی جے پی جو کچھ کر رہی ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ بی جے پی کے اقدامات سے اس کا مسلم مخالف اور اقلیتی مخالف تشخص تبدیل نہیں ہو گا۔
اس رپورٹ میں شامل بیشتر مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔