وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اسرائیل جمعرات سے شمالی غزہ کے علاقوں میں حماس کے خلاف اپنی فوجی کارروائی میں روزانہ چار گھنٹے کے وقفے پر عمل شروع کر رہا ہے۔
یہ اعلان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کی طرف سے ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی فورسز غزہ شہر میں حماس کے عسکریت پسندوں سے لڑ رہی ہیں اور مزید فلسطینی شہری علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔
غزہ کی پٹی کے سب سے بڑے شہر میں زمینی لڑائی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فورسز اس علاقے پر فضائی حملے بھی کر رہی ہیں۔
فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی
لڑائی کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ دفتر کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز تقریباً 50 ہزار لوگوں نےغزہ کی پٹی کے جنوبی حصے کی طرف نقل مکانی کی۔
اپنا گھر چھوڑ کر جانے والوں کی یہ اس ہفتے میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد تھی۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اتوار سے اب تک مجموعی طور پر 72 ہزار افراد شمالی غزہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
اسرائیل نے اتوار کو غزہ کے شمالی اور جنوبی حصے کو ملانے والی مرکزی سڑک کے ساتھ انخلاء کی راہداری کھولنا شروع کی تھی۔ یہ راہداری روزانہ چار گھنٹے تک کھلی رہتی ہے تاکہ شہریوں کو غزہ کے اس علاقے سے نکلنے کا موقع فراہم کیا جا سکے جو لڑائی کا مرکز ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے بدھ کے روز کہا تھا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے پیش نظر اس کے دورانیے میں ایک گھنٹے کا اضافہ کیا گیا تھا۔
شمالی غزہ سے جنوب کی طرف جانے والوں کو اقوام متحدہ اور دیگر امدادی گروپ انہیں جنوب میں پانی اور توانائی فراہم کرنے والے بسکٹ فراہم کر رہے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں حالات سنگین ہیں
غزہ کے شمالی حصے میں حالات سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں اور گزشتہ ہفتے سے وہاں کسی طرح کی امداد نہیں پہنچ پا رہی۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ منگل سے وہاں ایندھن، پانی، گندم کے آٹے کی قلت اور بیکریوں کو حملوں سے نقصان پہنچنے کی وجہ سے ان میں کام نہیں ہو رہا اور روٹی نایاب ہو گئی ہے۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1400 سے زیادہ افراد ہلاک اور 240 کے لگ بھگ کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور مغرب کے کئی دیگر ممالک اسرائیل کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک ساڑھے دس ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جن میں دو تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس تعداد کا آزاد ذرائع سے تصدیق کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں اس وزارت کے اعداد و شمار قابل بھروسہ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے جنوب کی جانب آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سب کا بندوبست کرنا بہت مشکل ہے۔
غزہ کے 23 لاکھ باشندوں میں سے تقریباً دو تہائی بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ جنوبی قصبے خان یونس کی ایک پناہ گاہ میں 22 ہزار افراد رہ رہے ہیں اور وہاں 600 افراد کے لیے صرف ایک ٹائلٹ کی سہولت ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے بدھ کے روز کہا کہ غزہ میں وبائی امراض کے تیزی سے پھیلنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے کیونکہ تباہ ہونے والی عمارتوں میں لاشیں گل سڑ رہی ہیں اور صحت، پانی اور صفائی کا نظام بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ چھوٹے بچوں میں اسہال کا مرض عام ہے۔ اس کے ساتھ خارش، جلدی اور سانس کے امراض میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ اور امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ بمباری کی وجہ ے امدادی عملے اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اسپتالوں کے لیے ضروری سامان کی فراہمی بہت محدود ہے اور وہ ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
دونوں جانب سے جنگی جرائم ہوئے ہیں
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ مصر کے ساتھ غزہ کی سرحدی گزرگاہ رفح کراسنگ بدھ کے روز بند رہی۔ جمعرات کو اس کے ذریعے 600 غیرملکی اور دوہری شہریت رکھنے والے افراد مصر میں داخل ہوئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر وولکر ترک بدھ کو رفح کراسنگ پر تھے۔ انہوں نے اس سرحدی گزرگاہ کو ایک زندہ ڈروانے خواب کا دروازہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی شہریوں کو اجتماعی سزا جنگی جرائم کے مترادف ہے اور شہریوں کا غیرقانونی جبری انخلا بھی۔
انہوں نے 7 اکتوبر کے مظالم اور یرغمال بنائے جانے کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بھی جنگی جرائم قرار دیا۔
(وی او اے نیوز)
فورم