|
ستمبر 2022 میں کراچی کی بندرگاہ پر حکام نے گدھے کی کھالوں بھرے ایک بحری جہاز کو اپنی تحویل میں لیا جسے نمک اور دست کاری کے سامان کی برآمدات کے لیے روانہ کیا جا رہا تھا۔
گدھے کی کھالوں سے بھرا یہ جہاز ہانک کانگ سے چین روانہ کیا جا رہا تھا۔ پاکستانی حکام نے جہاز کو تحویل میں لینے کے بعد ہانگ کانگ کے متعلقہ اداروں کو بھی اس بارے میں مطلع کر دیا تھا۔
یہ کارروائی اس لیے کی گئی تھی کیوں کہ پاکستان میں معاشی پالیسی سازی کے فورم اقتصادی تعاون کمیٹی نے گدھوں کی کھال کی برآمد اور تجارت پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
پاکستان میں اس سے قبل گدھے کی کھالوں کی چین برآمد اور اس کے گوشت کی مقامی سطح پر فروخت اور کھانوں میں استعمال کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔
اس وقت پاکستانی حکام یہ معلوم نہیں کر سکے تھے کہ جن گدھوں کی کھالیں غیر قانونی طور پر برآمد کی جا رہی تھیں ان کا گوشت کہاں گیا۔
تاہم خبر رساں 'رائٹرز' کی ایک حالیہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں چین نے مقامی سطح پر بڑھتی ہوئی گدھے کی کھال کی مانگ پوری کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کا رُخ کر لیا تھا۔
اس سے قبل چین میں گدھوں کی کھال کی مانگ برِ اعظم افریقہ سے پوری کی جا رہی تھی جس کے باعث افریقہ میں مزدور طبقے کو تباہ کُن معاشی حالات کا سامنا ہے۔
چین میں گدھے کی کھالوں کی مانگ کیوں زیادہ ہے؟ اور اسے پورا کرنے کے لیے کیا طریقے استعمال کیے جاتے ہیں؟ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
کھال کی مانگ کیوں بڑھ رہی ہے؟
چین میں گدھے کی کھال کی مانگ بڑھنے کی وجہ ایک مقامی دوا میں اس کا استعمال ہے جسے ’ای جیاؤ‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر سال یہ طلب پوری کرنے کے لیے دنیا میں لاکھوں گدھوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔
ای جیاؤ بنیادی طور پر گدھے کی کھال سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ بیوٹی پراڈکٹس اور کئی ایسی دواؤں کا اہم ترین جز ہے جنھیں خون میں اضافے اور جسم کے مدافعتی نظام کے لیے مفید تصور کیا جاتا ہے۔
روایتی طور پر ای جیاؤ ایک انتہائی مہنگی پراڈکٹ ہے۔ یہ چین میں ژنگ خاندان کے دورِ بادشاہت میں 1644 سے 1912 تک چینی اشرافیہ میں بہت مقبول ہوئی۔ حالیہ دور میں ای جیاؤ کو چین کی ایک ٹیلی ویژن سیریز ’ایمپریس ان دی پیلس‘ سے مقبولی حاصل ہوئی۔ یہ سیریز 2011 میں نشر کی گئی تھی۔
اس سیریز کی وجہ سے چین کے متوسط طبقے اور عمر رسیدہ افراد میں اس پراڈکٹ کی مانگ تیزی سے بڑھی۔ طلب میں اضافے کی وجہ سے ای جیاؤ کی قیمتوں میں 30 گنا اضافہ ہوا اور چین کے ریاستی میڈیا کے مطابق یہ 420 ڈالر فی گراہم تک پہنچ گئی۔
رواں برس فروری میں حیوانات کے لیے امدادی کام کرنے والے برطانوی ادارے ’ڈنکی سینکچری‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ای جیاؤ صنعت کو اندازاً سالانہ 59 لاکھ گدھے کی کھالیں درکار ہوتی ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ان کی آبادی کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
ای جیاؤ کی صنعت کی وجہ سے چین میں گدھوں کی آبادی میں 80 فی صد کمی آ چکی ہے۔ 1992 میں چین میں ایک کروڑ 10 لاکھ گدھے تھے جو اب محض 20 لاکھ رہ گئے ہیں۔ اسی لیے ای جیاؤ کی صںعت کو اپنی کھپت پوری کرنے کے لیے بیرونِ ملک سے کھالیں منگوانا پڑتی ہیں۔
سب سے زیادہ گدھے کہاں سے آتے ہیں؟
چین اور افریقہ کے تعلقات کی ماہر لارین جونسٹون کا کہنا ہے کہ ای جیاؤ کی بڑھتی ہوئی کھپت نے گدھوں کی بین الاقوامی تجارت کو پُر کشش بنا دیا ہے۔
اس پرکشش تجارت کا سب سے زیادہ اثر بھی افریقہ پر پڑا ہے جو اس خام مال کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے کیوں دنیا میں گدھوں کی سب سے زیادہ آبادی بھی برِاعظم افریقہ ہی میں ہے۔
لورین جونسٹون گزشتہ برس جنوری میں ’چین، افریقہ اینڈ مارکیٹ فور ڈنکیز‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ افریقہ کے مختلف ممالک میں گدھے روزمرہ نقل و حمل، بار برداری کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ آبادی کے ایک بڑے حصہ کا روزگار بھی ان کاموں سے جڑا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بار برداری کے لیے گدھے کے استعمال کی وجہ سے افریقہ کے کئی ممالک خواتین اور لڑکیوں کو مزدوری یا گھریلوں کاموں کے لیے سخت مشقت نہیں کرنا پڑتی۔
لورین جونسٹون کے مطابق گدھوں کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے مقامی سطح پر بھی اس کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے دیہی معیشت بھی متاثر ہوئی ہے۔
ان کے مطابق خود گدھوں کے تحفظ اور اس کی فراہمی میں پیش آنے والے خطرات سے قطع نظر افریقی ممالک کے دیہی علاقوں میں اس کی بڑھتی قیمتوں کے باعث خواتین اور بچیوں کی روز مرہ مشقت میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ تعمیر و ترقی کے مشترکہ عالمی اہداف حاصل کرنے میں رکاوٹ ہے۔
اسمگلنگ اور پابندیاں
صرف افریقی ملک نائیجیریا میں ہر سال ہزاروں گدھے کھال کے لیے ذبح کر دیے جاتے ہیں۔
اگرچہ نائیجیریا کی حکومت نے 2019 میں گدھوں کی برآمد پر پابندی لگا دی تھی لیکن تاحال انھیں ذبح کرنے کی اجازت ہے۔
نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا سے تعلق رکھنے والے حیوانات کے معالج ابراہیم ادو سہو کا کہنا ہے کہ زیادہ تر گدھے شمالی سرحد سے جنوبی علاقوں میں لا کر ذبح کیے جاتے ہیں اور پھر ان کی کھالیں چین برآمد کردی جاتی ہیں۔
رواں برس فروری میں 55 ممالک پر مبنی افریقن یونین نے اعلان کیا تھا کہ افریقہ میں گدھے کے ذبیحے اور اس کی کھال برآمد کرنے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
یونین نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جن ممالک نے اس پابندی کی خلاف ورزی کی تو انہیں مختلف تجارتی پابندیوں یا رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
افریقہ میں گدھوں کے تحفط کے لیے کام کرنے والی ماحولیات اور حیوانات سے متعلق تنظیموں نے افریقن یونین کے اقدام کو سراہا ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پابندی پر عمل درآمد کرانا انتہائی مشکل ہو گا۔
افریقن یونین کے اس اقدام سے قبل برکینا فاسو اور بوٹسوانا نے گدھے کے کھال کی تجارت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ 2022 میں تنزانیہ نے اس کی برآمد پر 10 سال کی پابندی عائد کی تھی۔ ان پابندیوں کے باجود اسمگلنگ اور دیگر ذرائع سے چین کو گدھوں کی کھال کی برآمد جاری ہے۔
گدھوں کی تعداد کم کیوں ہوتی ہے؟
ماہرینِ حیوانیات کے مطابق گائے، بکریوں اور سؤروں کے مقابلے میں گدھے کی افزائشِ نسل کی رفتار سست ہوتی ہے۔
دیگر مویشیوں کے مقابلے میں گدھی کے حمل کی مدت 11 سے ساڑھے 14 ماہ ہوتی ہے اور اکثر ایک حمل سے صرف ایک بچہ ہی پیدا ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں گدھوں کی کھال کی سالانہ 59 لاکھ کی کھپت پوری کرنے کے لیے اگر فارمنگ کی جائے تو اس کے لیے کم از کم دو دہائیاں درکار ہوں گی۔
اس رپوٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔