پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

  • پاکستان 15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا اور وہ برکس فورم میں رکنیت کا بھی خواہاں ہے۔
  • ماہرین یہ سوال اٹھا ر ہے ہیں کہ کیا ایسا ملک جو دنیا کے کئی اہم خطوں کے سنگم پر واقع ہے اپنی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوراندیش پالیسیاں اپنانے کے لیے تیار ہے۔
  • بھارت کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری، چین کے ساتھ سی پیک منصوبے میں سست روی، اسلام آباد کو درپیش عدم سیاسی استحکام اور پاکستان کے لیے امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے کے سفارتی چیلنج
  • پاکستان اب بھی امریکہ سے اچھے تعلقات رکھے گا اور اس کو دو بڑی طاقتوں کے درمیان موثر سفارت کاری کے ذریعہ توازن رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پاکستان 15 اور 16اکتوبر کو ایک ایسے وقت میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا جب اسے حزب اختلاف کے احتجاج اور حالیہ دنوں میں چینی شہریوں کو ٹارگٹ بنانے سمیت ملک میں متعدد دہشت گرد حملوں کی لہر کا سامنا رہا ہے۔

ماہرین یہ سوال اٹھا ر ہے ہیں کہ کیا ایسا ملک جو دنیا کے کئی اہم خطوں کے سنگم پر واقع ہے اپنی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوراندیش پالیسیاں اپنانے کے لیے تیار ہے؟

اس کے علاوہ اسلام آباد برکس فورم میں رکنیت کا بھی خواہاں ہے۔گزشتہ کچھ دہائیوں میں ابھرنے والی شنگھائی کوآپریشن آرگینائزیشن اور برکس تنظیمیں چین، بھارت اور روس سمیت دنیا کی چالیس فیصد سے زیادہ آبادی اور متعدد بڑی معیشتوں پر مشتمل ہیں جو رکن ملکوں کے مطابق ممکنہ طور پر امن اور سلامتی کے حصول اور تجارت کے فروغ کی جانب اہم پلیٹ فارمز کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

تاہم، مبصرین کا کہنا ہے کہ ان فورمز پر فعال کردار ادار کرنے اور ان کے ذریعہ تعاون سے مستفید ہونے کے لیے اسلام آباد کو امریکی تعاون کے ذریعہ آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے حصول کے بعد نہ صرف سیاسی استحکام، حکومتی عمل داری اور جاندار معاشی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے اپنی خارجہ پالیسی کے امور کو بھی کہیں بہتر انداز میں چلانا ہوگا۔

عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اسلام آباد میں اکتوبر 15 اور 16 کو ہونے والا ایس سی او کا اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب دنیا کو مشرق وسطی میں غزہ سے لبنان میں پھیلتی جنگ اور روس اور یوکرین میں جاری تنازعہ کے مضمرات کا سامنا ہے۔

SEE ALSO: پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر آئى ایم ایف قرض کی منظوری، کیا حکومت مطلوبہ نتائج حاصل کر پائے گی؟

پاکستان کو سب سے پہلے اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا

اس تناظر میں حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان کےسابق خارجہ سیکرٹری شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو سب سے پہلے اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، " اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اندرونی سیاسی استحکام، دوررس نتائج کی خارجہ پالیسی، حکومتی عملداری اور مضبوط اقتصادی ٖپالیسی کے فیصلے کرنا ہوں گے۔"

طویل عرصے تک بطور سفارت کار خدمات انجام دینے والے تجزیہ کار شمشاد خان نے نوٹ کیا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اپنے محل وقوع کی وجہ سے اہم اسٹریٹجگ اہمیت ہے اور تجارت اور اقتصادی تعاون کے لیے ایک گڑھ بن سکتا ہے لیکن اس کے موجودہ مسائل پر قابو کیے بغیر بین الاقوامی یا علاقائی تعاون سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ۔

"میرے تجربے میں کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی داخلی پالیسی کی شاخ ہوتی ہے ۔ اس لیے پاکستان میں کئی اہم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف تو اقتصادی بہتری ہےدوسری طرف اداروں میں ہم آہنگی نہ کہ چپقلش ہو اور سب سے بڑھ کر قیادت کو جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے جبکہ موجودہ حالات اس کے برعکس ہیں۔"

Your browser doesn’t support HTML5

’اب یہ گنجائش نہیں رہی کہ ملک میں کوئی نان فائلر رہے‘

اس دوران امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی بڑھ رہی ہے جبکہ چین کے ساتھ مسابقت میں بھی شدت آرہی ہے۔

دوسری طرف پاکستان جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور خلیج عرب کے ذریعہ مشرق وسطی کو ملانے والے مرکز کے طور پر واقع ہے اور اس کے ہمسایہ ملک بھارت اور چین اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی بستی ہے۔

لیکن ماہرین کے مطابق بھارت کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری، چین کے ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے سی پیک منصوبے میں سست روی، اسلام آباد کو درپیش عدم سیاسی استحکام اور پاکستان کے لیے امریکہ اور چین کے ساتھ تعقلات میں توازن قائم کرنے کے سفارتی چیلنج نے پاکستان کے لیے خطے میں تعاون کے مواقع اور تعلقات میں بہتری کے چیلنجز دونوں کو ایک اکٹھا کردیا ہے۔

ماہر معاشیات اور قانون دان اکرام الحق کہتے ہیں کہ پاکستان ایس سی اور برکس جیسی تنظیموں کے ذریعہ فائدہ اسی صورت میں اٹھا سکتا ہے جبکہ اس کے خطے میں تعلقات بہتر ہوں اور ملک میں دیرپا سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کی جائیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مثال کے طور پر پاکستان کے اس وقت بھارت سے تعلقات خراب ہیں جبکہ ایران اور افغانستان سے بھی تعلقات تسلی بخش نہیں ہیں۔

"ایسے میں آپ علاقائی تعاون سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کو خطے میں تجارتی روابط اور راہداریاں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔"

SEE ALSO: پاکستان میں منصفانہ ٹیکس نظام زراعت اور ریٹیلرز ٹیکس کے بغیر نافذ نہیں ہو سکتا: آئى ایم ایف مشن چیف

واضح رہے کہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ خطے میں تعاون چاہتے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو ایس سی او اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی ہے۔

ملک کو ایلیٹ کلچر اور بھاری دفاعی بجٹ کے مسائل کا سامنا

ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کو حل نہیں کر سکی ہے اور نہ ہی اس نے کوئی بڑے اقتصادی فیصلے کیے ہیں جو ملک کے مستقبل کے لیے امیدافزا ہوں۔

اکرام الحق، جو ٹیکس کے امور پرکتاب کے مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں پاکستان نے طویل المعیاد معاشی ترقی کی جانب ابھی اصلاحات کا آغاز بھی نہیں کیا جبکہ بھارت نے اصلاحات لانے کے دس سال بعد اس کے مثبت اثرات حاصل کرنا شروع کیے تھے۔

مثال کے طورپر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں عوام اور کاروباری حلقے مہنگی بجلی کے مسئلے سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اور اقتصادی سطح پر مہنگی بجلی پیداوری لاگت میں بڑے اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اقتصادی ترقی اس مسئلے کے فوری حل کا تقاضا کرتی ہے۔

دوسری طرف وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اصلاحات کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ ملک کو "ایلیٹ کلچر" کے جاری رہنے اور بھاری دفاعی بجٹ کے بڑے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

ٓمبصرین کے مطابق پاکستان کی ایس سی اور برکس جیسی عالمی ساؤتھ کی نمائندہ تنظیموں میں شرکت اس کا حق ہے۔ تاہم، دوسرے ملکوں کے مقابلے میں پاکستان کو اپنے مسائل اور موجودہ عالمی تناظر کی روشنی میں اسے اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ وہ امریکہ اور چین سے اپنے دو طرفہ تعلقات میں کیسے توازن برقرار رکھتا ہے۔

SEE ALSO: 'برکس' کی رُکنیت: روس کا پاکستان کی حمایت کا اعلان، 'بھارت رکاوٹ بن سکتا ہے'

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چین اور روس کے زیر سایہ فعال ایس سی او اور برکس تنظیمیں عالمی امور میں امریکی قیادت کے مقابل ایک متبادل نظام پیش کرنے کی کوشش کو ظاہر کرتی ہیں ۔

شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ ایس سی اور برکس اس وقت امریکہ کی عالمی قیادت کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہیں اگرچہ امریکہ اس وقت مشرق وسطی اور یوکرین میں دو بڑی جنگوں سے نمٹ رہا ہے۔

اکرام الحق بھی سمجھتے ہیں ہیں کہ امریکہ اس وقت ٹیکنالوجی اور اثرو نفوذ کےحوالے سے عالمی امور پر ایک غالب حیثیت رکھتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کا ہمسایہ ہے اور اسلام آباد کے لیے چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک بڑا منصوبہ ہے۔

ساتھ ہی پاکستان اب بھی امریکہ سے اچھے تعلقات رکھے گا اور اس کو دو بڑی طاقتوں کے درمیان موثر سفارت کاری کے ذریعہ توازن رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سیکیورٹی کے مسائل

SEE ALSO: کراچی دھماکہ: 'کچھ قوتیں پاکستان اور چین کے تعلقات خراب کرنا چاہتی ہیں'

گذشتہ ہفتےکابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بشام واقعے میں چینی انجینئرز کی ہلاکت کے بعد بیجنگ نے واضح پیغام دیا تھا کہ پاکستان میں چینی شہریوں کو مکمل سیکیورٹی دی جائے۔ لیکن اس کے باوجود کراچی میں چینی شہریوں پر حملہ ہوا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے چینی سفیر کو یقین دلایا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اجلاس کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے جائیں گے۔

پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جو 15 سے 16 اکتوبر تک اسلام آباد میں ہو گا۔

سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ چینی شہریوں پر حملہ سی پیک کے خلاف سازش ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کے باوجود ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ مگر پاکستان کو چین کے ساتھ مل کر سیکیورٹی کو مزید بہتر بنانے پر کام کرنا چاہیے۔

SEE ALSO: امریکہ کی مدد اور چین کا تعاون آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کی وجہ بنا: وزیرِ خزانہ

اکرام الحق نے وی او کو بتایا کہ پاکستان کا عالمی مالیاتی ادارے کے سات ارب ڈالر کی منظوری ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کو اپنی اقتصادی حالت بہتر کرنے کے لیے امریکی خیر سگالی کی ضرورت ہے کیونکہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرض لینے کی بات ہو یا عالمی مارکیٹ میں بانڈز لانچ کرنے کی بات ہو پاکستان کو امریکی حمایت کی ضرورت رہے گی۔

شمشاد خان اپنی نئی آنے والی کتاب "وٹنیس ٹو ہسٹری " کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ "پاکستان کو اپنے بہترین جغرافیائی محل وقوع کو بوجھ بننے سے بچانے اور اسے اثاثے میں تبدیل کرنے کے لیے بہت سے دورس اقدامات اور اصلاحات کےمدبرانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔"