|
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد حکام پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
بعض حلقے کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پوری کرنے کے لیے ملک میں منی بجٹ لایا جا سکتا ہے جس سے ملک کو مہنگائی کی نئی لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب کہ حکومت ٹیکس وصولی ہدف سے بھی پیچھے ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی اور صوبوں کی مدد سے ٹیکسوں کے شارٹ فال پر قابو پا سکتی ہے۔
لیکن اگر یہ سب نہ ہوا تو آئی ایم ایف کے پیکج کے باوجود منی بجٹ کا خدشہ برقرار ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان اس وقت ایک بہتر پوزیشن میں ہے اور ستمبر کے اختتام تک ٹیکس وصولیوں کے اہداف مکمل ہو جائیں گے۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے مطابق پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کر دی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 2024-2023 میں اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مسلسل پالیسی پر عمل درآمد کیا۔ اس پالیسی کے ذریعے اقتصادی استحکام کے لیے اہم اقدامات کیے گئے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ مالی سال 2024 میں شرح نمو 2.4 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی وجہ زرعی شعبے میں سرگرمیاں ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی میں نمایاں کمی ہوئی ہے جو کہ سنگل ڈیجٹ تک آ گئی ہے۔
کیا منی بجٹ آ سکتا ہے؟
ماہر معیشت خاقان نجیب کہتے ہیں کہ پاکستان اور آئی ایم ایف ہر تین ماہ بعد صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں جس میں ٹیکس وصولی سمیت کئی ٹارگٹس مقرر کیے جاتے ہیں۔ اگر پاکستان جون جولائی اور اگست کے اپنے دیے گئے ٹارگٹس پورے کر لیتا ہے تو نئے ٹیکس عائد کرنے کے لیے منی بجٹ لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔
خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ اگست تک کا شارٹ فال 98 ارب روپے کا ہے اور اگر ستمبر میں اس شارٹ فال کو کور کر لیا جاتا ہے اور ٹارگٹس پورے کر لیے جاتے ہیں تو نئے ٹیکس عائد کرنے کے لیے منی بجٹ لانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن اگر زیادہ شارٹ فال ہوا تو ٹیکس لگانا مجبوری ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ منی بجٹ لانے کے علاوہ بھی مختلف آپشنز موجود ہیں جن میں حکومتی اخراجات میں کمی یا ترقیاتی اسکیمیں روک کر صوبوں کی مدد سے خسارے کو کم کیا جا سکتا ہے۔
تاہم کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور صنعت کار شارق وہرہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پیکج کے بعد امکان ہے کہ منی بجٹ نہیں آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ستمبر کا مہینہ ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے لیے آخری مہینہ ہے اور اس میں انفرادی اور مختلف صنعتیں و ادارے اپنے ٹیکس ریٹرنز اور ٹیکس جمع کرا رہے ہیں اور امکان ہے کہ اگر کوئی جون یا جولائی کا شارٹ فال ہے بھی تو وہ اس میں کور ہو جائے گا۔
آئی ایم ایف پروگرام سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا؟
خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ملک میں استحکام آیا ہے اس سے یقیناً بہتری آئے گی۔
اُن کے بقول اس کے علاوہ پالیسی ریٹ میں بہتری آئی ہے اور چند ماہ میں 4.5 فی صد کمی آنے کی وجہ سے صنعتوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص گاڑی خریدتا ہے تو اسے اب 17.50 فی صد کے شرح سود پر گاڑی مل سکے گی، اس سے لوگوں کو ریلیف ملے گا۔ اس کے علاوہ مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آنے سے بھی لوگوں کو ریلیف ملے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر بھی بہتر ہو رہی ہے۔ رئیل ریلیف کا مطلب یہ ہے کہ اگر معیشت مستحکم ہو گی تو صنعتیں چلیں گی جس کی وجہ سے بیروزگاری میں کمی ہو گی۔
شارق وہرہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے درحقیقت تو ملکی قرضوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ لیکن اس سے دنیا بھر میں پاکستان کا تاثر مثبت ہو گا جس کی وجہ سے پاکستان مختلف عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض لے سکے گا۔
شارق وہرہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے کرنسی مستحکم ہوتی ہے اور ایکسپورٹ میں اضافہ ممکن ہوتا ہے جس کی وجہ سے معیشت چلتی ہے اور عام آدمی کو یقیناً ان سب کے فوائد مل سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق پیش رفت کے باوجود پاکستان کی کمزوریاں اور مسائل بدستور سنگین ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار ہے۔ اگر اصلاحات نہ ہوئیں تو پاکستان کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مزید پیچھے رہنے کا خطرہ ہے۔
فورم